بٹلہ ہاوس انکاونٹر
لہو پکارے ہے آستین کا
ابو ظفر عادل اعظمی
بٹلہ ہاوس انکاونٹر
کے ڈیڑھ سال بعداچانک پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ نیزیہ سوال مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ آخر حکومت اور عدلیہ اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی انکوائری سے کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے؟ واضح رہے کہ 13ستمبر 2008کو دہلی کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے محض 6دن بعد دہلی پولیس نے دھماکوں کی گتھی سلجھالینے کے دعوے کے ساتھ نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقہ کے بٹلہ ہاو_¿س میں واقع L-18کے فلیٹ 108میں اعظم گڑھ کے دو طلبہ کوشہیدکردیا تھانیز ایک پولیس انسپکٹر بھی مارا گیا تھا۔ پولیس اسے انکاو_¿نٹر کہہ رہی تھیجب کہ حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس پرمتعدد سوالات اٹھائے تھے۔ جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے نہ صرف تقویت دی ہے بلکہ دیگر کئی نئے سوالات بھی سامنے آگئے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم افروز عالم ساحل نے اس مبینہ انکاو_¿نٹر کے تعلق سے مختلف کاغذات کے حصول کے لئے حق اطلاع قانون (RTI)کے تحت متعدد بار مختلف سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کی فراہمی میں انہیں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا۔ گذشتہ سال افروز عالم نے حق اطلاع قانون کے تحت قومی حقوق انسانی کمیشن سے ان دستاویزات کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا، جس کی بنیاد پر قومی حقوق انسانی کمیشن نے جولائی 2009میں بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کے تعلق سے رپورٹ دی تھی۔ واضح رہے کہ قومی حقوق انسانی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پولیس کو کلین چٹ دیتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ پولیس نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائی تھیں۔ ملی رہنماو_¿ں کے علاوہ حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں اور سرکردہ صحافیوں نے اس رپورٹ کو جانبدارانہ اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ ان حضرات کا کمیشن پر یہ بھی الزام تھا کہ کمیشن نے یہ رپورٹ صرف پولیس کے فراہم کردہ کاغذات اور اطلاعات پر تیار کی ہے۔ کمیشن نے اس معاملے کی تفتیش کے لئے نہ تو جائے واردات کا معائنہ کیا اور نہ ہی عاطف اور ساجد کے اہل خانہ و رشتہ داروں سے اس ضمن میں کوئی بات کی۔
افروز عالم ساحل کے مطالبہ پران کوکمیشن کی طرف سے یہ رپورٹ گذشتہ 17مارچ کو موصول ہوئی۔ کمیشن کے روانہ کردہ دستاویزات میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے علاوہ پولیس کے ذریعہ کمیشن و حکومت کے سامنے داخل کردہ متعدد کاغذات کے عکس کے ساتھ خود کمیشن کی رپورٹ بھی شامل ہے۔
کیا کہتی ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ؟
قومی حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ فراہم کی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عاطف و ساجد کے ساتھ انسپکٹر موہن چندرشرما کی بھی رپورٹ ہے۔ رپورٹ کے مطابق عاطف امین(24سال) کی موت شدید درد (Shock & hemorrhage)سے ہوئی اورمحمد ساجد(17) کی موت سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جب کہ انسپکٹر شرما کی موت کی وجہ گولی سے پیٹ میں ہوئے زخم سے بہت زیادہ خون کا بہنا درج ہے۔رپورٹ کے مطابق تینوں لوگوں (عاطف، ساجد اور موہن چند شرما) کو جوزخم لگے ہیں وہ موت سے پہلے کے (Antemortem in Nature)ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محمد عاطف امین کے جسم پر 21 زخم ہیں۔ جس میں سے 20گولیوں کے ہیں۔ عاطف امین کو کل 10گولیاں لگیں ہیں اور ساری گولیاں پیچھے سے (پیٹھ کی طرف سے) لگی ہیں ۔8گولیاں پیٹھ پر، ایک دائیں بازو پر پیچھے سے اور ایک بائیں ران پر نیچے سے۔ 2X1سینٹی میٹر کا ایک زخم عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ زخم کسی غیر دھار دار چیز سے یا رگڑ لگنے سے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں عاطف کی پیٹھ اور جسم کے کئی حصوں میں خراشوں کا تذکرہ ہے۔ جب کہ زخم 20میں جو بائیں کولھے کے پاس ہے سے دھات کاایک 3سینٹی میٹرمادہ بھی ملا۔
محمد ساجد کے جسم پر کل 14زخم ہیں۔ ساجد کو 5 گولیاںلگیں ہیں اور ان سے 12زخم آئے ہیں۔ جس میں سے 3گولیاں دائیں طرف پیشانی کے اوپر ، ایک گولی پیٹھ پر،بائیں طرف اور ایک گولی دائیں کندھے پرلگی ہیں۔ محمد ساجد کو لگنے والی تمام گولیاں نیچے کی طرف سے نکلی ہیں۔ جیسے ایک گولی جبڑے کے نیچے سے (ٹھوڑی اور گردن کے درمیان) سر کے پچھلے حصے سے اور سینے سے۔ ساجد کی رپورٹ میں کم از کم دو دھات کے مادے (Metalic Object)ملنے کا تذکرہ ہے جس میں سے ایک کا سائز 0.8X1سینٹی میٹر ہے جب کہ دوسرا مادہ پیٹھ پر لگے زخم (GSW 7)سے ساجد کی ٹی شرٹ سے ملا ہے۔ اس زخم کے پاس 5X1.5سینٹی میٹر لمبا کھال چھلنے اور خراش کا نشان بھی ہے۔محمد ساجد کی پیٹھ پر درمیان میں سرخ رنگ کی 4X2سینٹی میٹر کی خراش ہے۔ اس کے علاوہ دائیں پیر میں سامنے (گھٹنے سے نیچے)کی طرف 3.5X2 سینٹی میٹر کا گہرا زخم ہے۔ ان دونوں زخموں کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ زخم گولی کے نہیں ہیں۔ ساجد کولگے کل 14زخموں میں سے رپورٹ میں 7زخموں کو انتہائی گہرا (Cavity Deep) زخم قرار دیا گیا ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک بار پھر بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ متعدد حقوق انسانی کی تنظیموں اور سماجی شخصیات نے پولیس، حکومت اور عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے، قومی حقوق انسانی کمیشن کو بھی گھیرنے کی کوشش کی ہے۔کیوںکہ جولائی 2009میں حقوق انسانی کمیشن نے اسی پوسٹ مارٹم رپورٹ و دیگر دستاویز کی بنیاد پر پولیس کے موقف کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی کو تسلیم کرتے ہوئے انکاو_¿نٹر کو جائز (Genuine) قرار دیا تھا۔ جب کہ عدالت عالیہ و عدالت عظمی اس واقعہ کی عدالتی تفتیش کا یہ کہہ کر انکار کرچکی ہیں کہ اس سے پولیس کے مورال گرنے کا اندیشہ ہے۔
انسپکٹر موہن چند شرما کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ بائیں کندھے سے 10سینٹی میٹر نیچے اور کندھے سے8سینٹی میٹر اوپر زخم کے باہری حصہ کی صفائی کی گئی تھی۔ موہن چندر شرما کو 19ستمبر 2008میں L-18میں زخمی ہونے کے بعد قریبی اسپتال ہولی فیملی میں داخل کیا گیا تھا۔ انہیں کندھے کے علاوہ پیٹ میں بھی گولی لگی تھی۔رپورٹ کے مطابق پیٹ میںگولی لگنے سے خون زیادہ بہا اور یہی موت کا سبب بنا۔ انکاو_¿نٹر کے بعد یہ سوال اٹھایا گیاتھا کہ جب موہن چندر شرما کو 10منٹ کے اندر طبی امداد حاصل ہوگئی تو پھر حساس ترین مقامات (Vital part)پر گولی نہ لگنے کے باوجود بھی ان کی موت کیسے واقع ہوگئی ہے؟ انکاو_¿نٹر کے بعد یہ بھی سوال اٹھایا گیا تھا کہ موہن چندر شرما کو گولی کس طرف سے لگی،آگے سے یا پیچھے سے۔ کیوں کہ اس طرح کی بھی آراءتھیں کہ شرما پولیس کی گولی کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ اس کو واضح کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ ہولی فیملی اسپتال جہاں انہیں طبی امداد کے لئے لایا گیا تھا اور بعد میں وہیں ان کی موت بھی واقع ہوئی، میں ان کے زخموں کی صفائی کی گئی تھی۔ لہذا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکے یہ زخم گولی لگنے کی وجہ سے ہوا ہے یا گولی نکلنے کی وجہ سے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسپکٹر موہن چندر شرما کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) میں سفید سوتی کپڑے میں لپٹا ہوا لے جایا گیا تھا۔ اور ان کے زخم پٹی (Adhesive Lecoplast)سے ڈھکے ہوتے تھے۔ رپورٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ تفتیشی افسر (IO) سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ موہن چند شرما کے کپڑے فورنسک سائنس تجربہ گاہ میں لائیں۔ واضح رہے کہ موہن چند شرما کا پوسٹ مارٹم 20ستمبر 2008کو 12بجے دن میں کیا گیا تھا۔ اور اسی وقت یہ رپورٹ بھی تیار کی گئی تھی۔
محمد عاطف امین کے جسم پر تقریبا تمام گولیاں پیچھے سے لگی ہیں۔ 8گولیاں پیٹھ میں لگ کر سینے سے نکلی ہیں۔ ایک گولی دائیں بازو پر پیچھے سے باہر کی جانب سے لگی ہے۔ جب کہ ایک گولی بائیں ران پر لگی ہے اور یہ گولی حیرت انگیز طور پر اوپر کی جانب جاکر بائیں کولھے کے پاس نکلی ہے۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کے تعلق سے چھپی خبروں اور اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان دیاتھا کہ عاطف گولیاں چلاتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کررہا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ فلیٹ میں موجود ہیں لہذا کراس فائرنگ کی وجہ سے اسے پیچھے سے گولیاں لگیں۔ لیکن انکاو_¿نٹر یا کراس فائرنگ میں کوئی گولی ران میں لگ کر کولھے کی طرف کیسے نکل سکتی ہے؟ عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے میں 1.5x1سینٹی میٹر کا جو زخم ہے اس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہگولی چلاتے ہوئے وہ گر گیا تھا۔ پیٹھ میں گولیاں لگنے سےگھٹنے کے بل گرنا سمجھ میں آسکتا ہے لیکن ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ پھر عاطف کی پیٹھ کی کھال اتنی بری طرح سے کیسے ادھڑ گئی ؟
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق عاطف کے دائیں کولہے پر 7سے6سینٹی میٹر کے اندر کئی جگہ رگڑ کے نشانات بھی پائے گئے ۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کا بیان آیا کہ ساجد ایک گولی لگنے کے بعد گر گیا تھا اور وہ کراس فائرنگ کی زد میں آگیا۔ اس بیان کو گمراہ کن کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ساجد کو جو گولیاں لگی ہیں ان میں سے تین پیشانی سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔جس میں سے ایک گولی ٹھوڑی اور گردن کے درمیان جبڑے سے بھی نکلی ہے۔ ساجد کے دائیں کندھے پر جو گولی ماری گئی ہے وہ بالکل سیدھی نیچے کی طرف آئی ہے۔ گولیوں کے ان نشانات کے بارے میں پہلے ہی آزاد فورنسک ماہرین کا کہنا ہے کہ یاتو ساجد کو بیٹھنے پرمجبور کیا گیا یا گولی چلانے والا اونچائی پر تھا۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت اس فلیٹ میں ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ کراس فائرنگ تو آمنے سامنے ہوتی ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ ساجد کے دائیں پیر میں جو زخم ہے آخر وہ کیسے لگا؟ پشت اور جسم کے دوسرے مقامات پر خراش کے نشانات کیسے آئے؟
ساجد کے پیر کے زخم کے تعلق سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کسی غیردھاردار چیز (Blunt Force by object or surface) سے لگے ہیں پولیس اس کی وجہ گولی لگنے کے بعد گرنا بتارہی ہے لیکنکیا3.5x2سینٹی میٹر کاگہرا زخم فرش پر گرنے سے آسکتا ہے؟پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ عاطف اور ساجد کو شہید کرنے سے پہلے بری طرح زدوکوب کیا گیا ہے۔
قومی حقوق انسانی کمیشن کی ہدایت کے مطابق اس طرح کی اموات کے پوسٹ مارٹم کی ویڈیو گرافی کر اکے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ اسے بھی کمیشن بھیجا جائے۔ لیکن موہن چند شرما کی رپورٹ میں محض اس بات کا تذکرہ ہے کہ زخموں کی’ فوٹو‘ پر مشتمل سی ڈی سیل کرکے متعلقہ تفتیشی افسر کے حوالے کی گئی لیکن عاطف وساجد کی رپورٹ میں ایسا کوئی تذکرہ نظر نہیں آتا۔
موہن چند شرما کے بلٹ پروف جیکٹ نہ پہننے کے سوال پر قومی حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ فراہم کردہ کاغذات میں دہلی پولیس نے یہ دلیل دی ہے کہ پولیس افسران کا اس علاقہ میں بلٹ پروف جیکٹ میں دکھائی دینا ممکن نہ تھاکیوں کہ اس سے علاقہ کے لوگوں کو شک ہوسکتا تھا۔
کمیشن کو دی گئی تفصیل میںپولیس نے کہا کہ حقوق انسانی سے وابستہ کچھ ارکان نے اس بابت سوال اٹھائے کہ آخر دو ملزم عارض اور شہزاد جائے واردات سے کیسے بھاگ نکلے۔ پولیس نے اس کے جواب میں کہا کہ اوپر کل7پولیس اہلکار تھے اور پولیس ہی کے بیان کے مطابق عاطف و ساجد سمیت کل 5لوگ (عاطف، ساجد، سیف، شہزاداور عارض)اس فلیٹ میں اس وقت موجود تھے۔ پولیس کو جائے واردات سے ایک AK-47رائفل اور 30کیلیبرکی دو پستول برآمد ہوئی۔ سیف کے تعلق سے پولیس کا بیان ہے کہ وہ ٹوائلٹ میں چھپا تھا اور بعد میں خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ عارض اور شہزاد کے وہاں سے بھاگنے کے سوال پرپولیس کا کہنا ہے کہ فلیٹ 108میں دو دروازے ہیں۔جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو ایک دروازہ اندر سے بندتھاانھوں نے دوسرے دروازے کو دھکا دیا وہ کھل گیا۔جب وہ لوگ اس دروازے سے اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع ہوئی تو عارض اور شہزاد بند دروازے کو کھول کر سیڑھی سے نیچے نکل بھاگے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ گولیوں کی آواز سن کر عمارت کے دوسرے فلیٹوں کے لوگ باہر نکل آئے جس سے انہیں بھاگنے میں آسانی ہوئی۔ لیکن جائے واردات کے عینی شاہدین کے مطابق فلیٹ کے سامنے کا طول و عرض تقریبا 6X4فٹ ہے۔ فلیٹ کے دونوں دروازے اس طرح واقع ہیں کہ اگر کوئی ایک شخص بھی فلیٹ کے دروازے پر کھڑا ہوجائے تو وہ دونوں دروازوں کو ڈھک لے گا۔ دوسرے سیڑھی پر اور نیچے پولیس اہلکار موجود تھے انھوں نےبھاگنے والوںکا پیچھا کیوں نہیں کیا؟
قومی حقوق انسانی کمیشن نے ان تمام دستاویزات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی رپورٹ دی کہ پولیس نے اپنے دفاع میںگولی چلائی تھی۔ کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں انصاف کے تقاضوں کو بری طرح پامال کیا تھا جس کے بعد نہ صرف کمیشن کی کارکردگی پر عوام نے انگلیاں اٹھانی شروع کردیں بلکہ عوامی احتجاج اور مظاہروں کا دور بھی شروع ہوگیا تھا۔
بٹلہ ہاو_¿س مبینہ انکاو_¿نٹر کی عدالتی تفتیش کا مطالبہ مرکزی حکومت کے ساتھ عدالتیں بھی مسترد کرچکی ہیں۔ سب کی بس ایک ہی دلیل ہے کہ اس سے پولیس کا مورال گرجائے گا۔ مرکزی حکومت اور عدالتیں جب یہ دلیل دے کہ انکوائری کے مطالبے کو خارج کررہی تھیں اسی وقت دھرادون میں رنویرنامی ایک نوجوان کی انکاونٹر میں موت کی تفتیش ہورہی تھی اور آخر کار پولیس کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔ آخر پولیس مورال کا یہ کون سا معیار ہے کہ اس کے تحفط کے لئے انصاف اور شفافیت کے اصولوں کو پامال کیا جارہاہے۔
انکاو_¿نٹر کے فورا بعد پولیس نے کہا کہ اس کو L-18کی جانکاری مفتی ابو البشر کے ذریعہ ہوئی ۔ مفتی ابوالبشر کو دھماکوں کے بعد احمد آباد سے دہلی لایا گیا تھا ۔ لیکن کرایہ دار کی تصدیق کے لئے مقامی تھانہ میں جمع کئے گئے (Tenant Verification ) فارم کو پر کرنے کی تاریخ 15اگست 2008درج ہے۔مقامی پولیس نے اپنے مہر اور دستخط کے ساتھ 21اگست کی تاریخ لکھی ہے۔ جب کہ مفتی ابو البشر کو اس سے قبل 14اگست ہی کو اعظم گڑھ سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس وقت تک عاطف امین و ساجد وغیرہ سریتا وہار کے فلیٹ میں رہتے تھے ۔ بعد میں پولیس نے یہ بیان دیا کہ وہ L-18تک عاطف کے موبائل فون سے پہنچی ہے۔
دہلی پولیس کے مطابق عاطف انڈین مجاہدین کا سرغنہ ہے اور سال 2006کے بعد سے تمام دھماکوں کا ذمہ دار ہے۔ جے پور، احمد آباد دھماکوں کی بھی ذمہ داری عاطف کے سر ڈالی گئی ہے۔ لیکن گجرات پولیس کے مطابق مفتی ابو البشر اور توقیر دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ اور انڈین مجاہدین کے سربراہ ہیں۔ اس طور پر مفتی ابو البشر کی گرفتاری کو انڈین مجاہدین کے نام پر پہلی گرفتاری تصور کیا جاتا رہا ہے۔ شہباز حسین کو 25اگست 2008کو لکھنو سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شہباز کے بارے میں راجستھان پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ جے پور دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ عاطف ودیگر پر اتر پردیش کی عدالتوں میں ہونے والے دھماکوں کا بھی الزام ہے لیکن اس الزام میں حکیم محمد طارق قاسمی اور خالد مجاہد سمیت کئی لوگ پہلے سے گرفتار ہیں۔
بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کے ڈیڑھ سال بعد اب پوسٹ مارٹم رپورٹ کے عوامی ہونے پر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے اور حقوق انسانی کے کارکنان اور انصاف پسند عوام کے انکاو_¿نٹر کی عدالتی جانچ کے مطالبہ میں شدت آنی یقینی ہے۔ حکومت ، انتظامیہ ، عدلیہ اور میڈیا نے اس پورے معاملے میں جو کردار ادا کیا وہ نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ اس سے ملک کے مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند طبقے میں یہ احساس پید اہوا کہ آخرحکومت اس کی عدالتی تفتیش کیوںکترا رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ عدالتی تفتیش حکومت کے ذریعہ ہی مقرر کیے گئے کسی موجودہ یا سابق جج کی نگرانی میں ہوگی لیکن عدالتی تفتیش کے مطالبے کو یکسر خارج کرنے سے ملک کا مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس کے ساتھ دہرا معیار اپنایا جارہا ہے۔
سال 2008میںہوئے متعدد دھماکوں کے تعلق سے تجزیہ نگاروں کی آراءمختلف رہی ہیں۔ بعض لوگ ان تمام واقعات کو ہیڈلی کی ہندوستان آمد سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، جب کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی ترجمان ششما سوراج نے احمد آباددھماکوں کے بعدا خبار نویسیوں سے کہا تھا کہ یہ سب کانگریس کرارہی ہے کیوں کہ نیو کلیر ڈیل کے مسئلہ پر اعتماد کے ووٹ کے دن پارلیمنٹ میں نوٹ کی گڈیوں کے پہنچنےسے وہ پریشان ہے اور ان دھماکوں کے ذریعہ وہ عوام کے ذہن کو موڑناچاہتی ہے ۔
سماج وادی پارٹی سے برخاست ممبر پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) امر سنگھ کے مطابق سونیا گاندھی، بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کی جانچ کرانا چاہتی تھیں لیکن کچھ انتظامی مسائل کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکیں۔ البتہ انہوںنے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ انتظامی مسائل کیا تھے جو اس راہ میں حائل تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد جن نکات کو اٹھایا گیا، ان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت کو عوامی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے وزیر داخلہ پی چدمبرم سے مل کر اعظم گڑھ سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے مقدمات کو یکجا کرکے دہلی میں لانے کی درخواست کی ہے۔ یقینا یہ وقت کی آواز ہے اور ملزمین کو جلد انصاف دلانے کے لئے ضروری بھی لیکن اعظم گڑھ کے علاوہ پورے ملک میںسینکڑوں دوسرے مسلمان بھی اسی طرح کے الزام میں برسوں سے قید ہیںان کو بھی اس میں شامل کیا جاناچاہیے۔ جلد انصاف ہر شہری کا دستوری اور جمہوری حق ہے اس حق کی بحالی کے لئے موثر اقدام ناگزیر ہے۔
٭٭
abuzafar@journalist.com
No comments:
Post a Comment