Wednesday, May 5, 2010

انڈین مجاہدین پر پابندی کیوں نہیں؟

انڈین مجاہدین پر پابندی کیوں نہیں؟
ابو ظفر عادل اعظمی


گذشتہ 13فروری کو مہاراشٹر کے شہر پونہ کی جرمن بیکری میںہونے والے دھماکہ کے بعدسے ”انڈین مجاہدین“ نامی فرضی تنظیم کا نام ایک بار پھر سرخیوں میںہے ۔لہذا جہاد، اسلامی شدت پسندی، دہشت گردی جیسی اصطلاحات پر ہمارا میڈیا آزادی اظہار رائے کی آڑلے کر نفرتوں کے تیر برسانے میںمزید تیز گام ہوگیا۔لیکن مہاراشٹر کے ایک پولیس افسر کے ذریعہ مذکورہ دھماکوں میں ابھینو بھارت کا نام لینے پر وقتی طور پر یہ مہم سرد خانے میں ہے۔ انڈین مجاہدین نامی تنظیم کا نام سب سے پہلے جے پور دھماکوں کے بعدلیا گیا اور اس کے بعد سے تقریبا ہر دھماکہ کے بعد پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی زبان پر یہی نام رہا۔
سیکورٹی ایجنسیوں کا ایک طرف اصرار ہے کہ گذشتہ تقریبا 5سالوں میں ملک میں ہوئے مختلف دھماکوں کے لئے یہ ذمہ داری ہے دوسری طرف پولیس اسے ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موو_¿منٹ آف انڈیا (سیمی) کا نیا روپ کہہ رہی ہے۔ سیمی پر گذشتہ 9سالوں سے امتناع عائد ہے جب کہ وزارت داخلہ کے سکریٹری جی کے پلّئی نے گذشتہ 20فروری کو ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے کہ حکومت کا انڈین مجاہدین پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جی کے پلئی کا بیان پونہ دھماکہ تقریبا ایک ہفتہ بعد اس وقت آیا جب سیکورٹی ایجنسیوں نے پونہ اور مہاراشٹر کے دیگر علاقوں کے علاوہ ملک بھر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے ایک خصوصی مہم چلا رکھی تھی۔ پورے ملک میں سینکڑوں لوگوں کو پوچھ تاچھ کے نام پر ہراساں کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی انڈین مجاہدین اور سیمی کے خلاف محاذ چھیڑدیا لیکن ایسے وقت میں ہوم سکریٹری کا انڈین مجاہدین پر پابندی لگانے سے انکار کرنے والا بیان کافی اہم بھی ہے اور معنیٰ خیز بھی۔
سال 2008ءمیں ملک کے متعدد مقامات پر سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے۔ انڈین مجاہدین کا پہلی بار نام 13مئی کے جے پور دھماکوں کے بعد سامنے آیا۔ پولیس کو دھماکے بعد دہلی کے نواحی علاقہ صاحب آباد سے ایک ای میل موصول ہوا جس میں انڈین مجاہدین نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس طرح کی متعدد کارروائیاں کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پھر احمد آباد ، بنگلور ، سورت ، دہلی ہر دھماکہ کے بعد یا تو ایک ای میل موصول ہوتا یا پھر فون کال جس میں اس کی ذمہ داری قبول کرنے کی بات کہی جاتی ۔ انڈین مجاہدین کے حوالہ سے پہلیگرفتاری اعظم گڑھ سے مفتی ابو البشر کی بتائی جاتی ہے۔ 14اگست 2008ءکو مفتی ابو البشر کی گرفتاری کے بعد گجرات کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس پی سی پانڈے میڈیاکے سامنے مسکراتے ہوئے یہ اعلان کرتے نظر آئے کہ انڈین مجاہدین سیمی کا بدلا ہوا نام ہے ان کے بقول SIMIمیں شروع کا’ایس ‘اور آخر کا’آئی‘نکال کر IM(انڈین مجاہدین)بنایا گیا ہے۔گجرات پولیس نے مفتی ابو البشر اور ممبئی کے سافٹ ویر انجینئر عبد السبحان عرف توقیر کو انڈین مجاہدین کا سربراہ بتایا۔ پھر گجرات سمیت پورے ملک میں گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو تا حال جاری ہے۔ اب تک سیکڑوں نوجوان انڈین مجاہدین کے لیبل کے تحت گرفتار کئے جاچکے ہیں اور بہت سارے نوجوان ایسے بھی ہیں جن کو پولیس نے مفرور اور مطلوب قرار دیا ہے۔
سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق انڈین مجاہدین کا تصور ایک دھائی پرانا ہے دہلی، اترپردیش کے متعدد اضلاع، مدھیہ پردیش ، راجستھان، کرناٹک ، آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر میں اس کی جڑیں گہری ہیں۔ انڈین مجاہدین پر دھلی، احمد آباد، جے پور حیدر آباد (گوکل چارٹ)میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں کے علاوہ اتر پردیش کی عدالتوں ، وارانسی کے سنکٹ سوچن مندر اور گورکھپور میں دھماکوں کے لئے ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ ممبئی پولیس نے انڈین مجاہدین کے نام پر ممبئی اور پونہ سے ستمبر 2008میں ایک ساتھ 21لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب تک صرف اعظم گڑھ سے درجن بھر مسلم اس نام پر گرفتار کئے جاچکے ہیں جب کہ دو نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کو ستمبر 2008میں بٹلہ ہاو_¿س میں شہید کردیا گیا تھا۔
حکومت، سیکورٹی ایجنسیوں اور پولیس کے انڈین مجاہدین کے تعلق سے دئے جانے والے بیانات میں بہت زیادہ جھول سے عوام کے اندر شک و شبہات اول روز ہی سے سر ابھار رہے تھے اور کبھی کبھار میڈیا میں بھی اس کا تذکرہ ہوا۔ 12دسمبر 2007ءکو اعظم گڑھ کے رائے سرائے بازار سے حکیم محمد طارق قاسمی اور 16دسمبر کو منڈھیاو_¿ں بازار سے محمد خالد مجاہد کی گرفتاری کے بعد یوپی پولیس نے اعلان کیا تھا کہ یہ دونوں لوگ اتر پردیش کی عدالتوں میں بم دھماکے کے ملزم ہیں اور اس کی سازش رچنے میں حرکت الجہاد الاسلامی (حوجی ) نامی تنظیم کا نام لیا گیا تھا۔ لیکن 19دسمبر کو بٹلہ ہاو_¿س کے فرضی انکاو_¿نٹر کے بعد عاطف امین ، محمد ساجد، محمد سیف اور عارف نسیم کو اس کےلئے قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان تمام دھماکوں کے علاوہ سال 2005میں شرم جیوی ایکسپریس میں ہوئے دھماکے کو بھی انڈین مجاہدین سے جوڑ دیا گیا ہے۔ 14اگست 2008کو اعظم گڑھ کے گاو_¿ں بینا پارہ سے مفتی ابو البشر اور 26اگست کو لکھنو_¿ سے شہباز حسین کی گرفتاری کے بعد دونوں کو بالترتیب احمد آباد اور جے پور دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا لیکن بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کے بعد یہ سارے الزامات محمد عاطف امین کے سر منڈھ دئے گئے۔
26مارچ 2008کو مدھیہ پردیش پولیس نے اندور کے قریب ایک مکان سے سیمی کے سابق جنرل سکریٹری صفدر ناگوری سمیت 13لوگوں کو گرفتار کیا۔ پولیس کے دعوے کے مطابق یہ لوگ ملک کے متعدد مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنارہے تھے اور اس کے لئے انہوںنے مدھیہ پردیش، کیرلہ اور گجرات کے جنگلوں میں ٹریننگ کیمپ بھی منعقد کئے تھے۔اس سے چند ماہ قبل کرناٹک کے شہر ہبلی، بیلگام، بنگلور اور آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدر آباد سے بھی اسی طرح کے الزام میں درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن ان میں سے کسی کے تعلق سے بھی انڈین مجاہدین نامی تنظیم کا کوئی نام سامنے نہیں آیا لیکن جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو پہلے سے قید افراد پر بھی انڈین مجاہدین سے تعلق رکھنے کا الزام لگا کر ایک طرف متعدد نئے مقامات قائم کئے گئے وہیں دوسری طرف ان پر مزید جبر و تشدد کا لائسنس حاصل کرلیا گیا۔
انصاف پسند عوام کو انڈین مجاہدین نام کی کسی تنظیم کے ہونے کا یقین نہ تو پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ مسلم قائدین و دیگرحقوق انسانی کے کارکنان نے اول روز ہی سے اس پر سوال کھڑے کئے تھے لیکن اگر واقعی اس نام کی کوئی تنظیم ہے اور وہ اتنی ساری ہلاکتوں اور قتل و خون کے لئے ذمہ دار ہے اور اتنے عرصے سے ملک میں بد امنی پھیلانے کے لئے کوشاں ہے تو اس کا نام ابھی کیوں آرہا ہے۔ اگر وہ 2005میں شرم جیوی ایکسپریس اور 2007میں اتر پردیش کی عدالتوں میں دھماکوں میں ملوث ہے تو اس نے اس وقت اس کی ذمہ داری کیوں نہ قبول کی اس نے صرف دہلی احمد آباد اور جے پور دھماکوں ہی کی ذمہ داری کیوں قبول کرلی؟
آخر انڈین مجاہدین کے اتنے خطرناک ”دہشت گرد“ دھماکوں کے بعد اپنے گھر میں کیوں رہ رہے تھے اور پولیس کو انہیں گرفتار کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ اگر وہ دھماکوں کی سازش رچنے، بم رکھنے کے بعد اس فلیٹ میں کیوں ٹھہرے رہے جس کے لئے انہوںنے مقامی پولیس اسٹیشن میں Verificationفارم جمع کرایا تھا؟اس جیسے نہ جانے کتنے سوالات ہیں جو ہر خاص و عام زبان پر اس وقت بھی تھے اور اب بھی ہیں جن کا جواب ڈھونڈھا جانا ضروری ہے۔
گذشتہ مہینے مغربی بنگال کے دارالحکومت کو لکاتہ میں کئی بڑے تاجروں کو انڈین مجاہدین کی طرف سے دبئی اور نیپال سے فون موصول ہونے کی خبر میڈیا میں چھائی رہیں۔ ان میں ان سے کروڑوں روپیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن دو تین دن کے بعد اس کے تعلق سے کوئی خبر نہیں آئی کہ آخر یہ فون دبئی سے کون کررہا تھا؟
انڈین مجاہدین کے تعلق سے ملک کا عام مسلمان مسلسل کنفیوژن کا شکار ہے۔اس کا ماننا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خون کو حلال کرنے اور ان کے نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا ایک عنوان ہے ۔اسی لئے تخریب کاری کی ہر واردات کو اس نا م سے جوڑا جاتاہے اور پھر گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔سیمی کے سابق کل ہند صدر ڈاکٹر شاہد بدر انڈین مجاہدین اور سیمی کے تعلق سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ انڈین مجاہدین آئی بی کی فرضی تنظیم ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں پر ظلم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر انڈین مجاہدین سیمی کا ہی حصہ ہے تو سیمی پر گذشتہ 9سالوں سے پابندی عائد ہے۔اصولی طور پر سیمی کی تمام ذیلی تنظیموں پر پابندی ہوگی۔ اس پر پابندی لگانے یا نہ لگانے کا سوال ہی بنیادی طورسے غلط ہے۔اب ہوم سکریٹری جی کے پلئی کاسیمی پرنئی پابندی لگانے کے ایک ماہ بعدیہ بیان دینا کہ” انڈین مجاہدین پر پابندی لگانے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں“ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ الگ تنظیم ہے“۔اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر سیمی پر پابندی کے نوٹیفکیشن میں ان دھماکوں کو بنیاد کیسے بنایا جاسکتا ہے جس کے لئے انڈین مجاہدین سے تعلق رکھنے کے الزام میں متعدد نوجوانون پہلے سے گرفتار ہیں۔
٭٭

No comments:

Post a Comment