مقبول فدا حسین اور تسلیمہ نسرین
دہرا رویہ کیوں؟
ابو ظفر عادل اعظمی
بالآخر مقبول فدا حسین نے قطر کی شہریت قبول کرلی اور تسلیمہ نسرین کے ویزے میں چھ ماہ کے بجائے
ایک سال کی توسیع ہوگئی۔ مقبول فدا حسین ہندوستان کے شہر ممبئی کے رہنے والے ہیں اور ہندو دیوی دیوتاو_¿ں کی قابل اعتراض تصویر بنانے کی پاداش میں گذشتہ 5سالوں سے خود ساختہ جلا وطنی کے زندگی گذا رہے ہیں، جب کہ تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش کی رہنے والی ہیں اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہنے اور اسلام و مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے کے جرم میں ملک بدر کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ ہندوستان کے شہر کلکتہ میں گذشتہ کئی سالوں سے مقیم ہے اور یہاں بھی اس نے اپنی مذموم حرکات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دو اہم رخ ہیں۔ اسے دو رخی اور تعصب کا مکروہ چہرہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یوں توپوری دنیا میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف باطل نے ہمہ گیر جنگ چھیڑ رکھی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک ہندوستان جمہوری اقدار کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی مسلسل ان کوششوں میں پیش پیش ہے۔ عمومی طور پر تو اعدائے اسلام نے اسلام پر ہر طرف سے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کوششوں میںاللہ کے رسول کی ذات بطور خاص نشانہ رہی ہے۔
تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش کی رہنے والی ہے۔ اس نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں متعدد بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، ازواج مطہراتؓ ، پردہ اور دیگر موضوعات پر انتہائی گمراہ کن اور نازیبا باتیں لکھیں ہیں۔پہلی مرتبہ جب اس نے اس یہ مذموم حرکت کی تھی تو بنگلہ دیش سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس کے خلاف صدا کے احتجاج بلند کی تھی اور بنگلہ دیش کی حکومت نے اس کو ملک بدر کردیا۔لیکن اس کو مسلمانوں کا دل جلانے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ تب سے اپنی اسلام دشمنی کی روٹی کھارہی۔یہ عورت ہندوستان سمیت مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہے۔ اس ہنگامے کے بعدہندوستان میں قیام کے دوران بھی اس نے متعدد شر انگیز مضامین لکھے جس سے مسلمانوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے اور انہوںنے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ متعدد بار کئی بڑے شہر اس آگ میں جھلس چکے ہیں اور سینکڑوں زندگیاں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ سال 2008ءمیں جب تسلیمہ نسرین کے ویزا کی مدت ختم ہوئی تھی تو اس نے لندن کا رخ کرتے ہوئے ہندوستان پر سنگین قسم کے الزامات لگائے تھے اس نے کہا تھا کہ مجھے گھٹن سی محسوس ہورہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ میں قید میں ہوں اس کے بعد بھی اسے نہ صرف ہندوستان میںرہنے کی جگہ دی گئی، بلکہ تحفظ کے لئے سخت ترین سیکورٹی فراہم کرکے دہلی میں کسی نامعلوم جگہ پر رکھا گیاہے اور چھ مہینے کے بجائے اس کے ویزے میں سال بھر کی توسیع کردی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک کا رویہ دوسرے شاتم رسول سلمان رشدی وغیرہ کے تعلق سے بھی ایسا ہی رہا ہے۔
مقبول فدا حسین بمبئی کے رہنے والے تھے، تجریدی آرٹ میں ان کا نام کافی مقبول ہے۔ ان کی پینٹنگ ہندو بیرون ہند قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ان کی بعض تصاویر کروڑوں روپیوں میں فروخت ہوئیں ۔انہیں پدم شری ، پدم بھوشن اور پدم وی بھوشن جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے۔ لیکن فلموں کے پوسٹر بنانے سے شروعات کرکے تجریدی آرٹ تک پہنچنے والے ایم ایف حسین کی شخصیت کئی پہلوو_¿ں سے ناقابل فہم رہی اور یہی آگے چل کر بارہا متنازعہ بھی بنی۔فد احسین کو نہ جانے کیوں ننگے پیر رہنے کی عادت ہوگئی۔ لہذ ا وہ جہاں بھی جاتے ہیں، ننگے پیر ہی رہتے۔ پارلیمنٹ میں بھی ننگے پاو_¿ں آتے۔ ننگے پاو_¿ں ہی انہوںنے لندن ، پیرس اور امریکہوغیرہ کا سفر بھی کیا۔ ایک فائیواسٹار ہوٹل میں داخل ہوتے وقت سیکورٹی کے عملہ نے انہیں ننگے پاو_¿ں ہونے کی وجہ سے روک لیا جس کے بعد اچھا خاصہ ہنگامہ ہوا اس کے بعد ہوٹل کا منیجر انہیں منا کر اندر لے گیا۔ راجیہ سبھا میں اپنی پہلی مدت میں نہ تو انہوںنے کوئی تقریرکی نہ سوال کیا اور نہ ہی کسی بحث میںحصہ لیا البتہ اس کے بعد ایک آرٹ کے ذریعہ راجیہ سبھا کی کارروائی کا عکس انہوں نے ضرور کھینچا۔
اندرا گاندھی نے جب اپنے دور حکومت میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی تو فدا حسین نے اندرا گاندھی کی تصویر درگا کی شکل میں بنائی جسے اندرا گاندھی نے پسند کیا اور پارلیمنٹ میں آویزاں بھی کیا لیکن جب جنتاپارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے اسے وہاں سے نکلوادیا۔ بعد میں جب پھر اندرا کی حکومت آئی تو انہیںراجیہ سبھا کی کرسی پیش کی گئی، شروع میں انہوںنے انکار کیالیکن دو سال کے بعد راضی ہوگئے۔ لیکن پارلیمنٹ میں ان کی حاضری انتہائی کم رہی ہے۔ ایم ایف حسین کے حوالے سے ایک دوسرے تنازعہ کا ذکر یوں کیا جاتا ہے کہ وہ 88 سال کی عمر میں اداکارہ مادھوری دکشت پر فدا ہوگئے ۔
ایم ایف حسین پر الزام ہے کہ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاو_¿ں کی قابل اعتراض تصاویر بنائی تھیں۔ اس پر سب سے زیادہ ہنگامہ سال 2006میں ہوا ۔ پورے ملک میں ایم ایف حسین کے خلاف 900مقدمے قائم کئے گئے۔ ممبئی میں واقع ان کے گھر پر توڑ پھوڑ کی گئی اور ان کی پینٹنگس کو ضائع کردیا گیا۔ ان حالات میں وہ دبئی چلے گئے اور تب سے لندن، قطر اور دبئی میں دن گزارنے کے بعد اب قطر نے انہیں شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔جس کو انہوں نے قبول کرتے ہوئے اپنا ہندوستانی پاسپورٹ قطر میں واقع ہندوستانی سفارت خانہ کو سونپ دیا۔
آزادی اظہار رائے اور مظاہرہ فن کے نام پر ملک و بیرون ملک میں دونوں کے حامیوں کی بظاہر کمی نہیں ہے۔ بعض لوگ تو ایم ایف حسین کو مسلمانوں کا نمائندہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اخبارات اس موقع سے ایم ایف حسین اور تسلیمہ نسرین کی مظلومیت کا رونا روتے نہیں تھکتے لیکن یہ بات انتہائی واضح ہے کہ ان دو کرداروں میں ہندوستانی حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کا رویہ انتہائی منافقانہ ہے۔ تسلیمہ نسرین شاتم رسول ہے اس نے ایک ایسی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے جسے ساری دنیاکے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ صرف مسلم مورخین ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر تعلیم یافتہ اور باشعور شخص آپ کی قربانی اور آپ کے برپا کردہ انقلاب سے واقف ہے ۔ تسلمیہ نسرین نے ازدواج مطہراتؓ کی شان میں نازیبا اور گستاخانہ باتیں کی ہیں جس کے خلاف ملک وبیرون ملک کے مسلمانوں نے سخت مظاہرہ کیا، لیکن کروڑ وں مسلمانوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک غیر ملکی عورت کو ہماری حکومت سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے ،اس کے تحفظ کے لئے کروڑوں اور اربوں روپئے خرچ کررہی ہے۔ اس کے نام پر متعددبار فسادات ہوچکے ہیں، متعدد جانیں ضائع ہوچکی ہیں، لیکن اظہار رائے کی گمراہ کن آزادی کے نعرے کے ان حامیوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے لیکن دوسری طرف یہیں کا پلا بڑھا شخص جو دو دو مرتبہ ممبر پارلیامنٹ رہ چکا ہے اس کے تحفظ میںحکومت اور سیکورٹی ایجنسیاں ناکام ہےں۔واضح رہے کہ ایم ایف حسین پر ہندو دیوی دیوتاو_¿ں کی قابل اعتراض تصاویر بنانے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ اسلام تو بلا وجہ عام تصویر کھنچوانے سے بھی منع کرتا ہے۔ اسلام کا ماننا تو یہ ہے کہ کوئی سرسوتی، ننگی نہ رہے چہ جائے کہ اس کی ننگی تصویر بنائی اور دکھائی جائے،اور اس ننگے پن کو آرٹ اور فن کا نام دے کر نہ صرف اس کے لئے جواز پیدا کیا جائے یا ایسے انتہائی قابل مذمت افعال کوآزادی رائے، آرٹ اور فن کا نام دے کر ان الفاظ اور اصطلاحات کی اہمیت کو پامال کیا جائے۔ لیکن یہاں ایک نہیں بہت ساری سرسوتی ننگی ہیں، ننگے پوسٹر ننگی تصاویر کا جال ہے۔ ننگے مجسموں کی حفاظت کے لئے لاکھوں خرچ کئے جارہے ہیں اور افسوس تو اس بات کہ ان کو دھرم اور مذہب کی سند حاصل ہے اور پھر اسی ننگے پن کو آزادی اور آرٹ کا نام دے دیا گیا ہے ۔کیا ننگا پن ہی اس دور کا ”امتیاز“ ہے۔
فدا حسین کا جرم یہ تھا کہ ننگے پن کے اس کاروبار میں وہ بھی شریک ہوگئے اور ان کا نام مسلمان تھا۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیشوا کو برا نہ کہو، نہ ہی گالی دو اس کی تصویر کشی کرنا تو دور کی بات لیکن پھر ان ننگے مجسموں کے بارے میں ہمارے یہ دھرم کے ٹھیکہ دار کیا کہیں گے جو ملک بھر کے مختلف مندروں میںنصب ہیں۔ آخر ان کو کس نے بنایا؟ کس نے وہاں لگایا اور کیوں آج تک ان کا ”نظارہ “ کیا جارہاہے اور اس کو آرٹ اور قدیم کلچر کی سند دے کر لاکھوں کی کمائی کی جارہی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ”آزادی اظہار رائے“ اور ” پاسداری فن “ کے خوشنما نعروں کو یہ مغائر مظاہر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ٭٭
abuzafar@journalist.com
No comments:
Post a Comment