Tuesday, March 1, 2011

معصوم دہشت گرد: ناکردہ گناہوںکی سزا کاٹ رہے ہیں مسلم نوجوان

ابو ظفر عادل اعظمی

سوامی اسیما آنند کے مکہ مسجد،سمجھوتہ ایکسپریس،مالیگاﺅں اور دیگر دھماکوںمیں اعتراف جرم کے بعد ان دھماکوں میں پہلے گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی اور ان کی بازآبادکاری کے نام پر سیاست گرماگئی ہے۔مختلف مقامات پر جہاں عوامی مظاہرے ہوئے ہیں وہیں ملی و قومی رہنماﺅں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گرفتار شدگان کی فوراً رہائی عمل میں آئے اور حکومت ان کو معاوضہ بھی دے۔

ستمبر 2006کے مالیگاﺅ ں ،فروری2007میں سمجھوتہ ایکسپریس اورپھر مئی 2007میں مکہ مسجد میں ہوئے دھماکوں میں پولیس اورسرکاری ایجنسیوں نے درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا اور بہتوں کو غیر قانونی تحویل میں رکھا اور اس دوران ان پر اذیتوں کے پہاڑ توڑے گئے ان میں سے بہترے نوجوان آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ناکردہ جرائم کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیںجھیل رہے ہیں۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر کے ناسک ضلع کے شہر مالیگاو ¿ں میں ستمبر 2006کو ہونے والے دھماکوں کو 4 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن اس معاملے میں فرضی طور سے ماخوذ کئے گئے مسلم نوجوان اب بھی قید وبند کی صعوبتیںبرداشت کر رہے ہیں
مالیگاو ¿ں دھماکوں کے تین ماہ بعد شدیدعوامی دباو ¿ کے تحت حکومت نے دسمبر 2006ءمیں یہ معاملہ سی بی آئی کے سپرد کردیا تھا ۔لیکن 3سال کی طویل مدت گزرنے کے بعد ابھی تک سی بی آئی عدالت میں75صفحات پرمشتمل جزوی رپورٹ ہی داخل کر پائی ہے۔سوامی اسیما آنند کے اعتراف جرم کی بعد سی بی آئی نے ممبئی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرکے مذکورہ کیس کی دوبارہ تفتیش کی اجازت مانگی ہے جب کہ دھماکے کے ملزمین نے عدالت سے ضمانت پررہاکرنے کی درخواست کی ہے۔ لہذا نانڈیر بم دھماکوں کی طرح اس معاملے میں بھی سی بی آئی کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔
8ستمبر 2006کو مالیگاو ¿ں میں حمیدیہ مسجد ، بڑا قبرستان اور مشاورت چوک پر سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے جب شب برات اور جمعہ کا دن ہونے سے جمعہ کی نماز میں کافی زیادہ بھیڑ تھی ۔39لوگ ان دھماکوں میں ہلاک اور 4سو سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ ہلاک شدگان اور زخمیوں میںتقریباً سب کے سب مسلمان تھے۔ لیکن حکومت اور اے ٹی ایس نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کا بھی الزام مسلمانوں کے سر تھوپا اور پے در پے سیمی کے نام پر 9مسلم نوجوانوں کو دھماکہ کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ ان ملزمین پر مہاراشٹر آرگنائزکرائم کنٹرول ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا۔ اے ٹی ایس نے اپنی چارج شیٹ میں ایک ملزم ابرار احمد غلام احمد (38سال) کو وعدہ معاف گواہ کے طور پر پیش کیا۔ ابرار احمد اس قت ممبئی کی بائیکلہ جیل میںقید ہے ۔ لیکن اس معاملے میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ابرار نے اپنے حلف نامے کے ذریعے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسے پولیس نے جھوٹا پھنسایا ہے اور اس دھماکے میں گرفتار کئے گئے نوجوانوں کو وہ نہیںجانتا۔ ابرار احمد نے 14صفحات پر مشتمل طویل حلف نامہ میں جو حیرت انگیز باتیں کہیںتھیںوہ کچھ یوں ہےں۔
مورخہ 22ستمبر 2006کو راج وردھن صاحب نے مجھے اور میری بیوی کو چند پولیس والوں کے ساتھ ناسک جانے کے لئے کہا ۔ ہمیں جگتاپ ہوٹل کے ملے میںایک کمرہ میں رکایا گیا ۔دوسرے دن ہم کو پولیس گاڑی میں بٹھا کر مدھیہ پردیش کے شہر جاورالے جایا گیا۔وہاں ایک ہوٹل میں دو روز رکھا گیا پھر وہاں سے اندور لے جایا گیا جہاں ایک مسلم لاج میںٹھہرایا گیا۔ دوسرے دن ہمیں اجین کے کچھ مندروں میں لے جایا گیا۔سادھو اور سادھوی سے ملاقات کرائی گئی اور پھر اجین کے بھولا ناتھ مندر میںایک کشمیری سادھو سے ملاقات کرانے کے لئے ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں کلوز سرکٹ کیمرے لگے تھے ۔ اس طرح تقریباً9دن ہمیںمختلف جگہوں پر پولیس والے لے جاتے رہے۔ اس درمیان ہمارے ساتھ پولیس کا نسٹبل نانا، روی، کرن کباڑی اوردیسائی وغیرہ ہم سفر تھے۔ اس درمیان ہمارے فوٹو اور ویڈیو شوٹنگ بھی کی گئی۔ جس میں سادھو اوربھگوارنگ کے لباس پہنے ہوئے لوگ تھے۔
”ہماری دیولالی میںایک فوجی آفیسر سے ملاقات کروائی گئی۔ جہاں ہمیں رکھاگیا تھا ،وہ فوجی آفیسر بھی اس عمارت میں رہتا تھا۔ ان کے ساتھ ہمیںکھانا بھی کھلایا گیا اورہمارا ایک ساتھ فوٹو بھی لیا گیا۔اسی درمیان چند سادھوو ¿ں سے ملایا گیا تصویریں لی گئی اور کہیں کہیں موبائیل سے بھی فوٹو لیا گیا اور موبائل کے ذریعے بات چیت بھی ریکارڈ کی گئی۔ اس دوران ہماری ATSوالوں سے بھی ملاقات کرائی گئی۔ اور مجھے بلاسٹ کا چشم دید گواہ بنا کر ان سے متعارف کرایا گیا۔ گذشتہ دنوں اخبار میںبھکّو چوک بم بلاسٹ کے تعلق سے اخبارات میں پکڑے گئے لوگوں کی تصویریں چھپی تھیں۔ جس میں اس فوجی افسر کی تصویر بھی تھی جس سے مجھے ملایا گیا تھا جس کے ساتھ مجھے کھانا کھلایا گیا تھا۔‘
” جیل میں مجھے معلوم ہوا کہ مالیگاو ¿ں میں بھکّو چوک پر دوسرا بم بلاسٹ ہوا تھا اور ایک سادھو ی پکڑی گئی ہے۔اتفاق سے بائیکلہ جیل میں ہی بھکو چوک بم بلاسٹ کی ملزمہ، سادھوی پرگیہ سنگھ کورکھا گیا ہے۔ اسے دیکھتے ہی میں اسے پہچان گیا یہ تو وہی سادھوی عورت ہے جس سے میری ملاقات اجین میں ہی کروائی گئی تھی۔ “
گرچہ اس حلف نامہ کی قانونی حیثیت ایک سرکاری گواہ کے بیان بدلنے سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس میں جن باتوں کا تذکرہ ہے، اس کا تسلسل ماضی قریب کے بم دھماکوں اور ہندو دہشت گردوں کی دوسری سرگرمیوں سے ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے۔کیوں کہ اس واقعے کے چند ماہ ہی پہلے آر ایس ایس بجرنگ دل ، شیوسینا جیسی انتہا پسند تنظیموں کے ارکان مالیگاو ¿ںکے قریبی علاقے، پربھنی جالنہ، پونا، اورنگ آباد، اور نانڈیر کی مساجد میں بم دھماکوں کے واقعات میں ملوث پائے گئے تھے۔ ان میں سب سے اہم معاملہ نانڈیر کا تھا جہاں آر ایس ایس کا ایک معروف کارکن لکشمن راج کونڈدار کے مکان پر بم بنانے کی خفیہ فیکٹری کا پتہ اس وقت چلا، جب بجرنگ دل کے دوکارکن نریش راج کونڈواراہ، ہمانشو بم بناتے وقت اتفاقاً دھماکہ ہونے سے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے، جب کہ ان کے کچھ ساتھی جائے واردات سے فرار ہونے میںکامیاب ہوگئے تھے۔ پولیس نے اس فیکٹری سے ایک ڈائری بھی برآمد کی تھی جس میںکچھ مساجد کے نام پتے اور نقشے تھے۔ اس کے علاوہ وہاں سے پولیس نے نقلی داڑھیاں مسلمانوں جیسے ملبوسات اور ٹوپیاں وغیرہ بھی برآمد کی تھیں۔
مالیگاو ¿ں دھماکے میں پولیس کو ابتدائی تفتیش میں ایک نقلی داڑھی اور لاوارث لاش ملی تھی لیکن چند دنوں بعد میڈیا میں بھی اس کا دوبارہ تذکرہ نہیں ہوا۔ دھماکوں کے فوراً بعد راحت رسانی کے کاموں میں سرگرم اور عینی شاہد مقیم انصاری کے مطابق اس نے جب ایک لاش ایمبولینس میں ڈالی تو اس کے ہاتھ میںنقلی داڑھی آگئی ۔ ایک دوسرے عینی شاہد مولانا عبد القیوم کوثری نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بعد ازاں پولیس نے یہ لاش غائب کردی۔
لیکن اے ٹی ایس نے ان تمام امکانات کے باوجود 9مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے پورا معاملہ حل کرنے کا دعویٰ کیااورابمکوکا قانون کے تحت یہ معاملہ خصوصی عدالت میں ہے۔
مالیگاو ¿ں کے مخبر افراد اور دیگر ملی تنظیموں اور مخلص وکلاءنے سخت جانفشانی سے تقریباً 4سو صفحات پر مشتمل ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ تیار کی جس میں مختلف گواہوں ،زخمیوں اور ملزمین کے اہل خانہ کے بیان بھی شامل ہیں۔ جس کے ساتھ کچھ اہم حصے ہائی کورٹ میں دائر عرضی میں شامل ہیں۔
مساجد اور قبرستان میں دھماکہ ہونے پر پولیس کے ذریعہ سیمی کا نام لئے جانے اور 9مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرنے پر عوام میں ناراضگی پائی جارہی تھی لوگوں کویہ بات سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ایک اسلام پسند تنظیم مسجدوں اور قبرستانوں میںدھماکے کیسے کرسکتی ہے۔ مالیگاو ¿ں کی ایک اہم شخصیت اور ملی محاذ کے قائد مولانا عبدالحمید ازھری ایک مشکل سوال کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کیا ایسی تنظیم جو بابری مسجد کی بازیابی کی کوششوں کو لے کر عتاب کا شکار ہوئی ہو، وہ کسی مسجد میں دھماکہ کر سکتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ ہم اول روز سے کہہ رہے ہیں کہ اس میں کوئی مسلمان ہرگز ملوث نہیں ہوسکتا“
دوسری طرح گرفتار شدگان پر ان 4سالوں میں تشدد کی انتہا کردی گئی، مہینوں پولیس ریمانڈ میںمارپیٹ کے علاوہ ان کا متعدد بار نارکو ٹیسٹ کروایا گیا۔ ان کو ناکردہ جرائم کے اعتراف کے لئے تشدد ، دھمکی اور لالچ دی گئی۔
پولیس ریمانڈ کے علاوہ ان پر عدالتی تحویل میں جیل میںبھی تشددہوا۔ تشدد اور ہولناک اذیت کا اندازہ لگانے کے لئے ملزمین کے ذریعہ دھماکوں کی دوسری برسی پر مرتب کی گئی رپورٹ مالیگاو ¿ں بم دھماکہ کیس آخر سچ کیا ہے ؟ سے ہوتا ہے۔ اس دھماکے میں آرتھر ملزم ممبئی کی ارتھ روڈ جیل میں قیدہیں۔ ملزمین کی اس رپورٹ اور مکہ مسجد دھماکہ کے ملزمین کی روداد کافی دردناک ہے یہ پولیس کی ایک بہیمانہ طویل اور خوفناک کہانی ہے جس کا کچھ منظرنامہ یوںہے۔
ملزم کو ایک خاص قسم کے ساو ¿نڈ پروف کمرے میں لے جایا جاتا ہے جہاں سے اس کی آواز باہر نہیں جاسکتی ملزم کے سارے کپڑے اتار کر برہنہ زمین پر بٹھا دیا جاتا ایک پولیس والا ملزم کے پیچھے کھڑے ہوکر خود کے دونوں پیر ملزم کے ہاتھوں کے یبچ ڈال دیتا ۔ اب ملزم کے دنوں پیر مخالف سمت میں پھیلائے جاتے ہیں یہاں تک کہ دونوں پیر دائیں بائیں بالکل سیدھے ہوجاتے ہیں۔ جو 180 ڈگری کا زاویہ بناتے ہیں۔ کبھی کبھی اور زیادہ پھیلا دیا جاتا ہے تکلیف کی وجہ سے ملزم پوری طاقت لگا کر چیختا ہے۔ مگر اس کی آواز ساو ¿نڈ پروف کمرے میں دب کر رہ جاتی ہے اس ٹارچر کی وجہ سے خون کا پیشاب کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔
ملزم کے چہرے پر ایک نقاب ڈال کر خاص قسم کی گیس چھوڑی جاتی ہے جس کی وجہ سے پورے بدن میں سوجن ہوجاتی ہے۔ اب اگر اس کے بدن کے کسی بھی حصہ کو ذرا بھی دبائیے، تو ملزم تکلیف سے چلا اٹھتا ہے اور ایک مخصوص تیل جیسے سوریہ پرکاش تیل کہتے ہیں، ناک میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے کئی گھنٹوں تک چہرے پر جلن ہوتی رہتی ہے اب تو پولیس اتنی حیوان ہوگئی ہے کہ اس تیل کو انجکشن کے ذریعہ ملزمین کے عضو تناسل (شرمگاہ) میںڈالاجاتا جس کے درد کی وجہ سے ملزم تڑپتا رہتا ہے۔ پولیس اس بات کی بھی دھمکی دیتی ہے، ملزم کے گھر والوں کو جبرا اٹھا کر پولیس اسٹیشن لایاجائے گا اور ان کو ملزمین کے سامنے اذیت دینے کی دھمکی دی جاتی ہے، جو ملزم کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ جس کے ڈر کی وجہ سے ملزم پر ناکردہ گناہ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔
پاور لوم میں استعمال ہونے والا بڑا پٹہ کا مضبوط بیلٹ بنایا جاتا ہے اور اس پٹہ سے ہتھیلی ، تلوے اور بدن کے دیگر حصوں پر جیسے سر، پیٹھ، جانگ، وغیرہ پر مارا گیا جس کی وجہ سے ہتھیلی ، تلوے کارنگ نیلا پڑ جاتا ہے۔ اور پیروں پر سوجن آجاتی ہے، بدن لہو لہان ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملزم کا سونا، بیٹھنا مشکل ہوجاتاہے ۔ اے ٹی ایس پولیس کے پاس ایک مشین ہے جس سے کرنٹ پیدا کرکے کرنٹ کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں۔ اس مشین سے لگے دو تاروں کو ملزم کے دونوں کانوں یا پھر پیر کے دونوں انگوٹھوں پر باندھا جاتا ہے اس کے بعد مشین چلائی جاتی ہے جس سے زبر دست جھٹکے شدت کے ساتھ لگتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر پولیس نے انسانیت کی حدوں کوپھلانگ کر ان تاروں سے بے گناہ ملزمین کی شرم گاہوں پر کرنٹ کے جھٹکے دئیے۔
نارکو ٹیسٹ کے دوران ملزمین سے پوچھا جاتا ’کیا تم نے بم رکھا“؟ بے قصورملزم جواب دیتا ہے کہ میں نے ”بم نہیں رکھا۔“ اب سی ڈی ایڈٹ کرتے وقت اس جملے سے ”نہیں“ کو انتہائی صفائی سے کٹ کردیا جاتا ۔ جس سے جملہ بن جاتا ہے ”میں نے بم رکھا۔“
مالیگاو ¿ں میں دوبارہ دو سال بعد 29ستمبر 2008کو رمضان میں دھماکے ہوئے جس میں 6افراد ہلاک ہوئے اور 89لوگ زخمی ہوئے۔ اے ٹی ایس نے 11ملزمین کو گرفتار کیا جس میں ایک فوجی افسر اور ایک سبکدوش منیجر شامل ہیں۔ اے ٹی ایس نے ان کے خلاف 4528صفحات کی چارج شیٹ داخل کی ہے جس میں ان کے اسرائیل اور کچھ دیگر ممالک سے دہشت گردانہ رشتہ کی بات سامنے آتی تھی۔ لیکن اس پورے معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابرار احمد کی کرنل پروہت سمیت سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر وغیرہ کی ملاقات پولیس اور اے ٹی ایس نے 2006ءہی میں کرائی تھی۔یہ ایک نیا پہلو تھا جسے مہاراشٹر اے ٹی ایس نے قطعی طورپر نظر انداز کیاہے۔
اب چار سال کی مدت گزرجانے کے بعد دھماکوںکے اصل مجرم نے بذات خود اپنا جرم قبول کر لیا توبے گناہ مسلم نوجوان تادم تحریر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی ہیں۔
اس موقع پر بہت سارے منہ ان کی حمایت میں بھانت بھانت کی بول رہے ہیں۔جب کہ ان کی گرفتاری کے وقت سیاست دانوں سے لے کر میڈیا اوربیوروکریسی نے جو گھناﺅنا کام کیا اس کی بھرپائی کیسے ہوگی یہ ایک مشکل سوال ہے۔آخر ان کی شبیہ کو داغ دار کرنے کے لیے بڑی بڑی سنسنی خیز سرخیاں لگانے والے ان ”مجاہدوں “ کی زبانیں آج کنگ کیوں ہیں۔آج وہ اسی طرح ان کے باعزت بری ہونے کے موقع پر سرخیاںلگانے سے کیوںکترارہے ہیں؟ یہ ایک ا ہم سوال ہے جس کاجواب انتہائی اہم اور مشکل ترین ہے۔آزاد ہندوستان کی آزاد کہی جانے والی صحافت اورصحافتی برادری کے لیے یہ سوال ایک چیلنج بن کر کھڑا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ سنگین الزام کی بنیادپر گرفتاری اورچند سالوں کے بعد بے قصور قرار دئے جانے کایہ واقعہ کوئی نیا ہے۔لیکن افسوس کامقام ہے کہ ایسے ناکردہ جرائم کی پاداش میں برسوںقید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اورپھر باعزت بری ہوجانے کے بعد بھی ہمارا معاشرہ ان کو وہ مقام دینے سے قاصر رہاہے جس کے وہ حق دار ہیں۔





Published at Monthly Afkar-e-Milli February 2011