Friday, May 21, 2010

بوسنیا کی ’مقدس جنگ‘

بوسنیا کی ’مقدس جنگ‘



ابوظفر عادل اعظمی
بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کے تقریبا 18 سال بعد دربوں کے سابق سربراہ راڈوان کروچ نے عدالت میں دئے گیے ایک بیان میں کہا ہے کہ سال 1992میں بوسنیا اور ہر زیگووینا میں مسلمانوں کے خلاف اس کی جنگ مقدس جنگ تھی۔سربوں کے سابق سربراہ کے اس بیان سے سیکولرزم کامکھوٹا لگاکر امن وشانتی کا درس دینے والے بے نقاب ہوئے ہیں بلکہ خود کو ترقی پسند اور روشن خیال گرداننے والوں کی حقیقی ذہنی پستی آشکارا ہوئی ہے۔
بوسینیا کی جنگ 1992میں سویت یونیں کے خاتمے کے بعد شروع ہوئی تھی ۔سویت یونین کے خاتمے کے بعداس کے ماتحت رہنے والی بہت ساری ریاستوں کو آزادی مل گئی اور انہوں نے وہاں اپنی خودمختاری کااعلان کرکے علیحدہ حکومتیں قائم کرلیں۔لیکن بوسنیا،جہاں مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد آباد ہے کو یہ آزادی نہیں دی گئی۔بوسنیا اور ہر زیگوونیا سے متصل ریاستیں سربیا اور یوگوسلاویہ کو امریکہ اور یوروپ نے معاشی ،سیاسی،سفارتی ہر طرح سے مدد کی۔جس کی وجہ سے وہ نہ صرف آزاد ہوئے بلکہ اپنے ہمسایہ بوسنیائی مسلمانوں کی آزادی چھیننے کے درپہ ہوگئے۔
بوسنیا کی جنگ ساڑھے تین سال جاری رہی ۔اس مدت میں دولاکھ سے زیادہ مسلمان سربوں اور کروٹسوں کے ہاتھوں شہید ہوئے۔بوسنیا کے شہر برسرنیکا میں صرف ایک دن میں 8ہزار مسلمان شہید کیے گئے۔امریکہ اور دیگر استعماری طاقتوں نے اس جنگ کو علاقائی اور گروہی جنگ سے تعبیر کیا۔یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بوسنیا اہل یوروپ کی آنکھ میںکانٹے کی طرح دھنس رہاتھا۔کہنے کو تو یوگوسلاویہ ایک کمیونسٹ ملک ہے اور وہاں ارتھوڈکس عیسائیت خاتمہ کے قریب تھی لیکن امریکہ ،یوروپ اور کمیونسٹ ممالک اپنی روایتی عداوت کو چھوڑ کر مٹھی بھر تہی مسلمانوں کے خلاف ایک ہوگئے۔ان کو خطرہ تھا کہ یوروپ کے دل کے اندر اگر اس طرح کی کوئی ریاست بن گئی جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی تو ان کے لیے بہت سارے مسائل کھڑے ہوجائیں گے ۔جب کہ امر واقعہ یہ ہے کہ 70سالہ طویل عرصے سے سویت یونین کے الحادی جبر کا شکاربوسنیائی مسلمان اپنے عقائد اورعبادات کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہوچکے تھے۔ان میں اسلامی اخلاقیات کا فقدان تھا ۔حتی کہ انہوں نے نام بھی مقامی طرز کے رکھ لیے تھے۔لیکن پھر بھی اہل کلیسا اور الحادپرست ان کے مستقبل کے بارے میں مسلسل اندیشہ ناک رہتے تھے۔جب کہ سربیا اور یوگوسلاویہ میں عیسائیت پہلے ہی سے خاتمہ کے قریب تھی لیکن س جنگ کا ایک لطیف پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام او رمسلمانوں کی عداوت نے جہاں عیسائیت کی ٹمٹماتی لو میں کچھ تیزی لائی وہیں بوسنیائی مسلمانوں کے اسلام اورخداترسی میں قابل قدر اضامہ ہواہے۔
بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک انتہائی افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ مدتوں سے ان کے پڑوسی رہے سرب اور کروٹس ہی ان کے قتل اور ان کی عورتوں کی عصمت دری کے واقعات میں ملوث رہے۔بوسنیا کے مسلمان ساڑھے تین سال کی خونی جدوجہد کے بعد بھی فتح حاصل نہ کرسکے بلکہ استعماری چالوں نے ان پر ایک کنفیڈریشن تھوپ دیا۔یہ ایک نئے انداز کا جبر ہے جس کا آج بھی وہاں کے مسلمان شکارہیں۔اس کنفیڈریشن کو تھوپنے والا شخص ریچرڈہالبروک ہے جو اس وقت افغانستان اور پاکستان میںامریکہ کا خصوصی ایلچی ہے۔آزادی انسانوں اور قوموں کا بنیادی حق ہے لیکن لاکھوں افراد کی قربانی دینے کے بعد بھی بوسنیائی مسلمانوں کو آزادی نہ ملنا ایک تکلیف دہ بات ہے لیکن اس جنگ کا ایک خوش آئندہ پہلو یہ ہے اس سے وہاں کے مسلمان اپنے بل بوتے پر اپنے دینی وجود کو منوانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔استعمار کی پرانی چال ہے کہ جب وہ میدان میں ٹک نہیں پاتاتو معاہدہ اور صلح پر زور دیتاہے پھر جب اسے احساس ہوتاہے کہ ماحول سازگار ہوچلاہے تو معاہدوں کو پس پچت ڈال کر نئے سرے سے برسرپیکار ہوجاتاہے۔یا پھر ایسی صورت پر فریق مخالف کو راضی کرنے کی کوشش کرتاہے جس سے کوئی عبوری حکومت یا کنفیڈریشن جیسی حکومت تشکیل پائے جس سے دور دور تک کہیں اسلام کی بو نہ آرہی ہو۔روس سے ملحقہ علاقہ چیچنیا اس کی واضح مثال ہے۔
راڈون کروچ کی حقیقت بیانی سے ایک بار پھر مغرب کا عفریت بے نقاب ہواہے۔مغرب کو اپنے خودساختہ اصولوں پر بڑاناز ہے لیکن اس کے یہ اصول اس کی سب بڑی کمزوری ہیں اور اس کمزور ی کا اشتہاربھی۔اہل مغرب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کمزوریوں ،مجبوریوںاور پستیوں کو مثبت نام دے رکھاہے۔اور اس کی مسلسل تکرار واصرار نے اس کی نظر میں اس کو اور خوشنما بنادیا ہے۔جس کی وجہ سے اسے باقی ماندہ چیزیںمنفی اور صرف منفی نظرآتی ہیں۔ورنہ بوسنیا کی جنگ اپنی نہاد میں پہلے دن سے ہی خالص مذہبی اور صلیبی جنگ تھی۔اس کو گروہی اور علاقائی جنگ قرار دینے کا سبب اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا کہ اس سے عالم اسلام کو الگ پیغام دیناتھا۔قارئین کو اس بات پر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ70سال کمیونسٹ رہا ملک کس طرح صلیبی جنگ لڑسکتاہے۔اسلام کو پس پشت ڈالنے اور مسلمانوں کو رسوا کرنے کے لیے اہل مغرب بوقت ضرورت صلیبی ،صیہونی ،الحادی سب کچھ بن سکتے ہیں۔دنیا میںسیکولر اقدار کا سب سے بڑا دعوے دار ملک جب افغانستان کے خلاف صلیبی جنگ چھیڑ سکتاہے تو بوسنیاکی اس جنگ کو مقدس او ر صلیبی قرار دینے میں آپ کو تعجب کیوں ہے؟ (09540147251)

Wednesday, May 5, 2010

بٹلہ ہاوس انکاونٹر

بٹلہ ہاوس انکاونٹر
لہو پکارے ہے آستین کا
ابو ظفر عادل اعظمی


بٹلہ ہاوس انکاونٹر
کے ڈیڑھ سال بعداچانک پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کی کارکردگی پر اٹھنے والے سوالوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ نیزیہ سوال مزید اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ آخر حکومت اور عدلیہ اس واقعہ کی اعلیٰ سطحی انکوائری سے کیوں پیچھے ہٹ رہی ہے؟ واضح رہے کہ 13ستمبر 2008کو دہلی کے سلسلہ وار بم دھماکوں کے محض 6دن بعد دہلی پولیس نے دھماکوں کی گتھی سلجھالینے کے دعوے کے ساتھ نئی دہلی کے جامعہ نگر علاقہ کے بٹلہ ہاو_¿س میں واقع L-18کے فلیٹ 108میں اعظم گڑھ کے دو طلبہ کوشہیدکردیا تھانیز ایک پولیس انسپکٹر بھی مارا گیا تھا۔ پولیس اسے انکاو_¿نٹر کہہ رہی تھیجب کہ حقوق انسانی کی تنظیموں نے اس پرمتعدد سوالات اٹھائے تھے۔ جسے پوسٹ مارٹم رپورٹ نے نہ صرف تقویت دی ہے بلکہ دیگر کئی نئے سوالات بھی سامنے آگئے ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم افروز عالم ساحل نے اس مبینہ انکاو_¿نٹر کے تعلق سے مختلف کاغذات کے حصول کے لئے حق اطلاع قانون (RTI)کے تحت متعدد بار مختلف سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کی فراہمی میں انہیں ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ گیا۔ گذشتہ سال افروز عالم نے حق اطلاع قانون کے تحت قومی حقوق انسانی کمیشن سے ان دستاویزات کی فراہمی کا مطالبہ کیا تھا، جس کی بنیاد پر قومی حقوق انسانی کمیشن نے جولائی 2009میں بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کے تعلق سے رپورٹ دی تھی۔ واضح رہے کہ قومی حقوق انسانی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں پولیس کو کلین چٹ دیتے ہوئے یہ تسلیم کرلیا تھا کہ پولیس نے اپنے دفاع میں گولیاں چلائی تھیں۔ ملی رہنماو_¿ں کے علاوہ حقوق انسانی کی متعدد تنظیموں اور سرکردہ صحافیوں نے اس رپورٹ کو جانبدارانہ اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ ان حضرات کا کمیشن پر یہ بھی الزام تھا کہ کمیشن نے یہ رپورٹ صرف پولیس کے فراہم کردہ کاغذات اور اطلاعات پر تیار کی ہے۔ کمیشن نے اس معاملے کی تفتیش کے لئے نہ تو جائے واردات کا معائنہ کیا اور نہ ہی عاطف اور ساجد کے اہل خانہ و رشتہ داروں سے اس ضمن میں کوئی بات کی۔
افروز عالم ساحل کے مطالبہ پران کوکمیشن کی طرف سے یہ رپورٹ گذشتہ 17مارچ کو موصول ہوئی۔ کمیشن کے روانہ کردہ دستاویزات میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کے علاوہ پولیس کے ذریعہ کمیشن و حکومت کے سامنے داخل کردہ متعدد کاغذات کے عکس کے ساتھ خود کمیشن کی رپورٹ بھی شامل ہے۔
کیا کہتی ہے پوسٹ مارٹم رپورٹ؟
قومی حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ فراہم کی گئی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں عاطف و ساجد کے ساتھ انسپکٹر موہن چندرشرما کی بھی رپورٹ ہے۔ رپورٹ کے مطابق عاطف امین(24سال) کی موت شدید درد (Shock & hemorrhage)سے ہوئی اورمحمد ساجد(17) کی موت سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جب کہ انسپکٹر شرما کی موت کی وجہ گولی سے پیٹ میں ہوئے زخم سے بہت زیادہ خون کا بہنا درج ہے۔رپورٹ کے مطابق تینوں لوگوں (عاطف، ساجد اور موہن چند شرما) کو جوزخم لگے ہیں وہ موت سے پہلے کے (Antemortem in Nature)ہیں۔
رپورٹ کے مطابق محمد عاطف امین کے جسم پر 21 زخم ہیں۔ جس میں سے 20گولیوں کے ہیں۔ عاطف امین کو کل 10گولیاں لگیں ہیں اور ساری گولیاں پیچھے سے (پیٹھ کی طرف سے) لگی ہیں ۔8گولیاں پیٹھ پر، ایک دائیں بازو پر پیچھے سے اور ایک بائیں ران پر نیچے سے۔ 2X1سینٹی میٹر کا ایک زخم عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ زخم کسی غیر دھار دار چیز سے یا رگڑ لگنے سے ہوا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں عاطف کی پیٹھ اور جسم کے کئی حصوں میں خراشوں کا تذکرہ ہے۔ جب کہ زخم 20میں جو بائیں کولھے کے پاس ہے سے دھات کاایک 3سینٹی میٹرمادہ بھی ملا۔
محمد ساجد کے جسم پر کل 14زخم ہیں۔ ساجد کو 5 گولیاںلگیں ہیں اور ان سے 12زخم آئے ہیں۔ جس میں سے 3گولیاں دائیں طرف پیشانی کے اوپر ، ایک گولی پیٹھ پر،بائیں طرف اور ایک گولی دائیں کندھے پرلگی ہیں۔ محمد ساجد کو لگنے والی تمام گولیاں نیچے کی طرف سے نکلی ہیں۔ جیسے ایک گولی جبڑے کے نیچے سے (ٹھوڑی اور گردن کے درمیان) سر کے پچھلے حصے سے اور سینے سے۔ ساجد کی رپورٹ میں کم از کم دو دھات کے مادے (Metalic Object)ملنے کا تذکرہ ہے جس میں سے ایک کا سائز 0.8X1سینٹی میٹر ہے جب کہ دوسرا مادہ پیٹھ پر لگے زخم (GSW 7)سے ساجد کی ٹی شرٹ سے ملا ہے۔ اس زخم کے پاس 5X1.5سینٹی میٹر لمبا کھال چھلنے اور خراش کا نشان بھی ہے۔محمد ساجد کی پیٹھ پر درمیان میں سرخ رنگ کی 4X2سینٹی میٹر کی خراش ہے۔ اس کے علاوہ دائیں پیر میں سامنے (گھٹنے سے نیچے)کی طرف 3.5X2 سینٹی میٹر کا گہرا زخم ہے۔ ان دونوں زخموں کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ زخم گولی کے نہیں ہیں۔ ساجد کولگے کل 14زخموں میں سے رپورٹ میں 7زخموں کو انتہائی گہرا (Cavity Deep) زخم قرار دیا گیا ہے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد ایک بار پھر بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر پر انگلیاں اٹھنے لگی ہیں۔ متعدد حقوق انسانی کی تنظیموں اور سماجی شخصیات نے پولیس، حکومت اور عدلیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتے ہوئے، قومی حقوق انسانی کمیشن کو بھی گھیرنے کی کوشش کی ہے۔کیوںکہ جولائی 2009میں حقوق انسانی کمیشن نے اسی پوسٹ مارٹم رپورٹ و دیگر دستاویز کی بنیاد پر پولیس کے موقف کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی کو تسلیم کرتے ہوئے انکاو_¿نٹر کو جائز (Genuine) قرار دیا تھا۔ جب کہ عدالت عالیہ و عدالت عظمی اس واقعہ کی عدالتی تفتیش کا یہ کہہ کر انکار کرچکی ہیں کہ اس سے پولیس کے مورال گرنے کا اندیشہ ہے۔
انسپکٹر موہن چند شرما کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ بائیں کندھے سے 10سینٹی میٹر نیچے اور کندھے سے8سینٹی میٹر اوپر زخم کے باہری حصہ کی صفائی کی گئی تھی۔ موہن چندر شرما کو 19ستمبر 2008میں L-18میں زخمی ہونے کے بعد قریبی اسپتال ہولی فیملی میں داخل کیا گیا تھا۔ انہیں کندھے کے علاوہ پیٹ میں بھی گولی لگی تھی۔رپورٹ کے مطابق پیٹ میںگولی لگنے سے خون زیادہ بہا اور یہی موت کا سبب بنا۔ انکاو_¿نٹر کے بعد یہ سوال اٹھایا گیاتھا کہ جب موہن چندر شرما کو 10منٹ کے اندر طبی امداد حاصل ہوگئی تو پھر حساس ترین مقامات (Vital part)پر گولی نہ لگنے کے باوجود بھی ان کی موت کیسے واقع ہوگئی ہے؟ انکاو_¿نٹر کے بعد یہ بھی سوال اٹھایا گیا تھا کہ موہن چندر شرما کو گولی کس طرف سے لگی،آگے سے یا پیچھے سے۔ کیوں کہ اس طرح کی بھی آراءتھیں کہ شرما پولیس کی گولی کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ اس کو واضح کرنے سے قاصر ہے، کیوں کہ ہولی فیملی اسپتال جہاں انہیں طبی امداد کے لئے لایا گیا تھا اور بعد میں وہیں ان کی موت بھی واقع ہوئی، میں ان کے زخموں کی صفائی کی گئی تھی۔ لہذا پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر حتمی طور پر یہ نہیں بتا سکے یہ زخم گولی لگنے کی وجہ سے ہوا ہے یا گولی نکلنے کی وجہ سے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ انسپکٹر موہن چندر شرما کو آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) میں سفید سوتی کپڑے میں لپٹا ہوا لے جایا گیا تھا۔ اور ان کے زخم پٹی (Adhesive Lecoplast)سے ڈھکے ہوتے تھے۔ رپورٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ تفتیشی افسر (IO) سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ موہن چند شرما کے کپڑے فورنسک سائنس تجربہ گاہ میں لائیں۔ واضح رہے کہ موہن چند شرما کا پوسٹ مارٹم 20ستمبر 2008کو 12بجے دن میں کیا گیا تھا۔ اور اسی وقت یہ رپورٹ بھی تیار کی گئی تھی۔
محمد عاطف امین کے جسم پر تقریبا تمام گولیاں پیچھے سے لگی ہیں۔ 8گولیاں پیٹھ میں لگ کر سینے سے نکلی ہیں۔ ایک گولی دائیں بازو پر پیچھے سے باہر کی جانب سے لگی ہے۔ جب کہ ایک گولی بائیں ران پر لگی ہے اور یہ گولی حیرت انگیز طور پر اوپر کی جانب جاکر بائیں کولھے کے پاس نکلی ہے۔ پولیس نے پوسٹ مارٹم کے تعلق سے چھپی خبروں اور اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے یہ بیان دیاتھا کہ عاطف گولیاں چلاتے ہوئے بھاگنے کی کوشش کررہا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ کتنے لوگ فلیٹ میں موجود ہیں لہذا کراس فائرنگ کی وجہ سے اسے پیچھے سے گولیاں لگیں۔ لیکن انکاو_¿نٹر یا کراس فائرنگ میں کوئی گولی ران میں لگ کر کولھے کی طرف کیسے نکل سکتی ہے؟ عاطف کے دائیں پیر کے گھٹنے میں 1.5x1سینٹی میٹر کا جو زخم ہے اس کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہگولی چلاتے ہوئے وہ گر گیا تھا۔ پیٹھ میں گولیاں لگنے سےگھٹنے کے بل گرنا سمجھ میں آسکتا ہے لیکن ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ پھر عاطف کی پیٹھ کی کھال اتنی بری طرح سے کیسے ادھڑ گئی ؟
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق عاطف کے دائیں کولہے پر 7سے6سینٹی میٹر کے اندر کئی جگہ رگڑ کے نشانات بھی پائے گئے ۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کا بیان آیا کہ ساجد ایک گولی لگنے کے بعد گر گیا تھا اور وہ کراس فائرنگ کی زد میں آگیا۔ اس بیان کو گمراہ کن کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ ساجد کو جو گولیاں لگی ہیں ان میں سے تین پیشانی سے نیچے کی طرف آتی ہیں۔جس میں سے ایک گولی ٹھوڑی اور گردن کے درمیان جبڑے سے بھی نکلی ہے۔ ساجد کے دائیں کندھے پر جو گولی ماری گئی ہے وہ بالکل سیدھی نیچے کی طرف آئی ہے۔ گولیوں کے ان نشانات کے بارے میں پہلے ہی آزاد فورنسک ماہرین کا کہنا ہے کہ یاتو ساجد کو بیٹھنے پرمجبور کیا گیا یا گولی چلانے والا اونچائی پر تھا۔ ظاہر ہے کہ دوسری صورت اس فلیٹ میں ممکن نہیں۔ دوسرے یہ کہ کراس فائرنگ تو آمنے سامنے ہوتی ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ ساجد کے دائیں پیر میں جو زخم ہے آخر وہ کیسے لگا؟ پشت اور جسم کے دوسرے مقامات پر خراش کے نشانات کیسے آئے؟
ساجد کے پیر کے زخم کے تعلق سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ کسی غیردھاردار چیز (Blunt Force by object or surface) سے لگے ہیں پولیس اس کی وجہ گولی لگنے کے بعد گرنا بتارہی ہے لیکنکیا3.5x2سینٹی میٹر کاگہرا زخم فرش پر گرنے سے آسکتا ہے؟پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس الزام کی توثیق ہوتی ہے کہ عاطف اور ساجد کو شہید کرنے سے پہلے بری طرح زدوکوب کیا گیا ہے۔
قومی حقوق انسانی کمیشن کی ہدایت کے مطابق اس طرح کی اموات کے پوسٹ مارٹم کی ویڈیو گرافی کر اکے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے ساتھ اسے بھی کمیشن بھیجا جائے۔ لیکن موہن چند شرما کی رپورٹ میں محض اس بات کا تذکرہ ہے کہ زخموں کی’ فوٹو‘ پر مشتمل سی ڈی سیل کرکے متعلقہ تفتیشی افسر کے حوالے کی گئی لیکن عاطف وساجد کی رپورٹ میں ایسا کوئی تذکرہ نظر نہیں آتا۔
موہن چند شرما کے بلٹ پروف جیکٹ نہ پہننے کے سوال پر قومی حقوق انسانی کمیشن کے ذریعہ فراہم کردہ کاغذات میں دہلی پولیس نے یہ دلیل دی ہے کہ پولیس افسران کا اس علاقہ میں بلٹ پروف جیکٹ میں دکھائی دینا ممکن نہ تھاکیوں کہ اس سے علاقہ کے لوگوں کو شک ہوسکتا تھا۔
کمیشن کو دی گئی تفصیل میںپولیس نے کہا کہ حقوق انسانی سے وابستہ کچھ ارکان نے اس بابت سوال اٹھائے کہ آخر دو ملزم عارض اور شہزاد جائے واردات سے کیسے بھاگ نکلے۔ پولیس نے اس کے جواب میں کہا کہ اوپر کل7پولیس اہلکار تھے اور پولیس ہی کے بیان کے مطابق عاطف و ساجد سمیت کل 5لوگ (عاطف، ساجد، سیف، شہزاداور عارض)اس فلیٹ میں اس وقت موجود تھے۔ پولیس کو جائے واردات سے ایک AK-47رائفل اور 30کیلیبرکی دو پستول برآمد ہوئی۔ سیف کے تعلق سے پولیس کا بیان ہے کہ وہ ٹوائلٹ میں چھپا تھا اور بعد میں خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔ عارض اور شہزاد کے وہاں سے بھاگنے کے سوال پرپولیس کا کہنا ہے کہ فلیٹ 108میں دو دروازے ہیں۔جب وہ لوگ وہاں پہنچے تو ایک دروازہ اندر سے بندتھاانھوں نے دوسرے دروازے کو دھکا دیا وہ کھل گیا۔جب وہ لوگ اس دروازے سے اندر داخل ہوئے اور فائرنگ شروع ہوئی تو عارض اور شہزاد بند دروازے کو کھول کر سیڑھی سے نیچے نکل بھاگے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ گولیوں کی آواز سن کر عمارت کے دوسرے فلیٹوں کے لوگ باہر نکل آئے جس سے انہیں بھاگنے میں آسانی ہوئی۔ لیکن جائے واردات کے عینی شاہدین کے مطابق فلیٹ کے سامنے کا طول و عرض تقریبا 6X4فٹ ہے۔ فلیٹ کے دونوں دروازے اس طرح واقع ہیں کہ اگر کوئی ایک شخص بھی فلیٹ کے دروازے پر کھڑا ہوجائے تو وہ دونوں دروازوں کو ڈھک لے گا۔ دوسرے سیڑھی پر اور نیچے پولیس اہلکار موجود تھے انھوں نےبھاگنے والوںکا پیچھا کیوں نہیں کیا؟
قومی حقوق انسانی کمیشن نے ان تمام دستاویزات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی رپورٹ دی کہ پولیس نے اپنے دفاع میںگولی چلائی تھی۔ کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں انصاف کے تقاضوں کو بری طرح پامال کیا تھا جس کے بعد نہ صرف کمیشن کی کارکردگی پر عوام نے انگلیاں اٹھانی شروع کردیں بلکہ عوامی احتجاج اور مظاہروں کا دور بھی شروع ہوگیا تھا۔
بٹلہ ہاو_¿س مبینہ انکاو_¿نٹر کی عدالتی تفتیش کا مطالبہ مرکزی حکومت کے ساتھ عدالتیں بھی مسترد کرچکی ہیں۔ سب کی بس ایک ہی دلیل ہے کہ اس سے پولیس کا مورال گرجائے گا۔ مرکزی حکومت اور عدالتیں جب یہ دلیل دے کہ انکوائری کے مطالبے کو خارج کررہی تھیں اسی وقت دھرادون میں رنویرنامی ایک نوجوان کی انکاونٹر میں موت کی تفتیش ہورہی تھی اور آخر کار پولیس کو قصور وار ٹھہرایا گیا۔ آخر پولیس مورال کا یہ کون سا معیار ہے کہ اس کے تحفط کے لئے انصاف اور شفافیت کے اصولوں کو پامال کیا جارہاہے۔
انکاو_¿نٹر کے فورا بعد پولیس نے کہا کہ اس کو L-18کی جانکاری مفتی ابو البشر کے ذریعہ ہوئی ۔ مفتی ابوالبشر کو دھماکوں کے بعد احمد آباد سے دہلی لایا گیا تھا ۔ لیکن کرایہ دار کی تصدیق کے لئے مقامی تھانہ میں جمع کئے گئے (Tenant Verification ) فارم کو پر کرنے کی تاریخ 15اگست 2008درج ہے۔مقامی پولیس نے اپنے مہر اور دستخط کے ساتھ 21اگست کی تاریخ لکھی ہے۔ جب کہ مفتی ابو البشر کو اس سے قبل 14اگست ہی کو اعظم گڑھ سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ اس وقت تک عاطف امین و ساجد وغیرہ سریتا وہار کے فلیٹ میں رہتے تھے ۔ بعد میں پولیس نے یہ بیان دیا کہ وہ L-18تک عاطف کے موبائل فون سے پہنچی ہے۔
دہلی پولیس کے مطابق عاطف انڈین مجاہدین کا سرغنہ ہے اور سال 2006کے بعد سے تمام دھماکوں کا ذمہ دار ہے۔ جے پور، احمد آباد دھماکوں کی بھی ذمہ داری عاطف کے سر ڈالی گئی ہے۔ لیکن گجرات پولیس کے مطابق مفتی ابو البشر اور توقیر دھماکوں کے ماسٹر مائنڈ اور انڈین مجاہدین کے سربراہ ہیں۔ اس طور پر مفتی ابو البشر کی گرفتاری کو انڈین مجاہدین کے نام پر پہلی گرفتاری تصور کیا جاتا رہا ہے۔ شہباز حسین کو 25اگست 2008کو لکھنو سے گرفتار کیا گیا تھا۔ شہباز کے بارے میں راجستھان پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ جے پور دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ عاطف ودیگر پر اتر پردیش کی عدالتوں میں ہونے والے دھماکوں کا بھی الزام ہے لیکن اس الزام میں حکیم محمد طارق قاسمی اور خالد مجاہد سمیت کئی لوگ پہلے سے گرفتار ہیں۔
بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کے ڈیڑھ سال بعد اب پوسٹ مارٹم رپورٹ کے عوامی ہونے پر احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوچکا ہے اور حقوق انسانی کے کارکنان اور انصاف پسند عوام کے انکاو_¿نٹر کی عدالتی جانچ کے مطالبہ میں شدت آنی یقینی ہے۔ حکومت ، انتظامیہ ، عدلیہ اور میڈیا نے اس پورے معاملے میں جو کردار ادا کیا وہ نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ اس سے ملک کے مسلمانوں اور دیگر انصاف پسند طبقے میں یہ احساس پید اہوا کہ آخرحکومت اس کی عدالتی تفتیش کیوںکترا رہی ہے؟ ظاہر ہے کہ عدالتی تفتیش حکومت کے ذریعہ ہی مقرر کیے گئے کسی موجودہ یا سابق جج کی نگرانی میں ہوگی لیکن عدالتی تفتیش کے مطالبے کو یکسر خارج کرنے سے ملک کا مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اس کے ساتھ دہرا معیار اپنایا جارہا ہے۔
سال 2008میںہوئے متعدد دھماکوں کے تعلق سے تجزیہ نگاروں کی آراءمختلف رہی ہیں۔ بعض لوگ ان تمام واقعات کو ہیڈلی کی ہندوستان آمد سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، جب کہ بھارتیہ جنتاپارٹی کی ترجمان ششما سوراج نے احمد آباددھماکوں کے بعدا خبار نویسیوں سے کہا تھا کہ یہ سب کانگریس کرارہی ہے کیوں کہ نیو کلیر ڈیل کے مسئلہ پر اعتماد کے ووٹ کے دن پارلیمنٹ میں نوٹ کی گڈیوں کے پہنچنےسے وہ پریشان ہے اور ان دھماکوں کے ذریعہ وہ عوام کے ذہن کو موڑناچاہتی ہے ۔
سماج وادی پارٹی سے برخاست ممبر پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) امر سنگھ کے مطابق سونیا گاندھی، بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کی جانچ کرانا چاہتی تھیں لیکن کچھ انتظامی مسائل کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکیں۔ البتہ انہوںنے یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ انتظامی مسائل کیا تھے جو اس راہ میں حائل تھے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد جن نکات کو اٹھایا گیا، ان کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ ہماری حکومت کو عوامی رائے کو یکسر نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے وزیر داخلہ پی چدمبرم سے مل کر اعظم گڑھ سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار نوجوانوں کے مقدمات کو یکجا کرکے دہلی میں لانے کی درخواست کی ہے۔ یقینا یہ وقت کی آواز ہے اور ملزمین کو جلد انصاف دلانے کے لئے ضروری بھی لیکن اعظم گڑھ کے علاوہ پورے ملک میںسینکڑوں دوسرے مسلمان بھی اسی طرح کے الزام میں برسوں سے قید ہیںان کو بھی اس میں شامل کیا جاناچاہیے۔ جلد انصاف ہر شہری کا دستوری اور جمہوری حق ہے اس حق کی بحالی کے لئے موثر اقدام ناگزیر ہے۔
٭٭


abuzafar@journalist.com

انڈین مجاہدین پر پابندی کیوں نہیں؟

انڈین مجاہدین پر پابندی کیوں نہیں؟
ابو ظفر عادل اعظمی


گذشتہ 13فروری کو مہاراشٹر کے شہر پونہ کی جرمن بیکری میںہونے والے دھماکہ کے بعدسے ”انڈین مجاہدین“ نامی فرضی تنظیم کا نام ایک بار پھر سرخیوں میںہے ۔لہذا جہاد، اسلامی شدت پسندی، دہشت گردی جیسی اصطلاحات پر ہمارا میڈیا آزادی اظہار رائے کی آڑلے کر نفرتوں کے تیر برسانے میںمزید تیز گام ہوگیا۔لیکن مہاراشٹر کے ایک پولیس افسر کے ذریعہ مذکورہ دھماکوں میں ابھینو بھارت کا نام لینے پر وقتی طور پر یہ مہم سرد خانے میں ہے۔ انڈین مجاہدین نامی تنظیم کا نام سب سے پہلے جے پور دھماکوں کے بعدلیا گیا اور اس کے بعد سے تقریبا ہر دھماکہ کے بعد پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کی زبان پر یہی نام رہا۔
سیکورٹی ایجنسیوں کا ایک طرف اصرار ہے کہ گذشتہ تقریبا 5سالوں میں ملک میں ہوئے مختلف دھماکوں کے لئے یہ ذمہ داری ہے دوسری طرف پولیس اسے ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موو_¿منٹ آف انڈیا (سیمی) کا نیا روپ کہہ رہی ہے۔ سیمی پر گذشتہ 9سالوں سے امتناع عائد ہے جب کہ وزارت داخلہ کے سکریٹری جی کے پلّئی نے گذشتہ 20فروری کو ایک چونکا دینے والا بیان دیا ہے کہ حکومت کا انڈین مجاہدین پر پابندی لگانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
جی کے پلئی کا بیان پونہ دھماکہ تقریبا ایک ہفتہ بعد اس وقت آیا جب سیکورٹی ایجنسیوں نے پونہ اور مہاراشٹر کے دیگر علاقوں کے علاوہ ملک بھر کے مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے ایک خصوصی مہم چلا رکھی تھی۔ پورے ملک میں سینکڑوں لوگوں کو پوچھ تاچھ کے نام پر ہراساں کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ نے بھی انڈین مجاہدین اور سیمی کے خلاف محاذ چھیڑدیا لیکن ایسے وقت میں ہوم سکریٹری کا انڈین مجاہدین پر پابندی لگانے سے انکار کرنے والا بیان کافی اہم بھی ہے اور معنیٰ خیز بھی۔
سال 2008ءمیں ملک کے متعدد مقامات پر سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے۔ انڈین مجاہدین کا پہلی بار نام 13مئی کے جے پور دھماکوں کے بعد سامنے آیا۔ پولیس کو دھماکے بعد دہلی کے نواحی علاقہ صاحب آباد سے ایک ای میل موصول ہوا جس میں انڈین مجاہدین نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس طرح کی متعدد کارروائیاں کرنے کی دھمکی دی تھی۔ پھر احمد آباد ، بنگلور ، سورت ، دہلی ہر دھماکہ کے بعد یا تو ایک ای میل موصول ہوتا یا پھر فون کال جس میں اس کی ذمہ داری قبول کرنے کی بات کہی جاتی ۔ انڈین مجاہدین کے حوالہ سے پہلیگرفتاری اعظم گڑھ سے مفتی ابو البشر کی بتائی جاتی ہے۔ 14اگست 2008ءکو مفتی ابو البشر کی گرفتاری کے بعد گجرات کے ڈائرکٹر جنرل آف پولیس پی سی پانڈے میڈیاکے سامنے مسکراتے ہوئے یہ اعلان کرتے نظر آئے کہ انڈین مجاہدین سیمی کا بدلا ہوا نام ہے ان کے بقول SIMIمیں شروع کا’ایس ‘اور آخر کا’آئی‘نکال کر IM(انڈین مجاہدین)بنایا گیا ہے۔گجرات پولیس نے مفتی ابو البشر اور ممبئی کے سافٹ ویر انجینئر عبد السبحان عرف توقیر کو انڈین مجاہدین کا سربراہ بتایا۔ پھر گجرات سمیت پورے ملک میں گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو تا حال جاری ہے۔ اب تک سیکڑوں نوجوان انڈین مجاہدین کے لیبل کے تحت گرفتار کئے جاچکے ہیں اور بہت سارے نوجوان ایسے بھی ہیں جن کو پولیس نے مفرور اور مطلوب قرار دیا ہے۔
سیکورٹی ایجنسیوں کے مطابق انڈین مجاہدین کا تصور ایک دھائی پرانا ہے دہلی، اترپردیش کے متعدد اضلاع، مدھیہ پردیش ، راجستھان، کرناٹک ، آندھرا پردیش، گجرات، مہاراشٹر میں اس کی جڑیں گہری ہیں۔ انڈین مجاہدین پر دھلی، احمد آباد، جے پور حیدر آباد (گوکل چارٹ)میں ہونے والے سلسلہ وار دھماکوں کے علاوہ اتر پردیش کی عدالتوں ، وارانسی کے سنکٹ سوچن مندر اور گورکھپور میں دھماکوں کے لئے ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ ممبئی پولیس نے انڈین مجاہدین کے نام پر ممبئی اور پونہ سے ستمبر 2008میں ایک ساتھ 21لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب تک صرف اعظم گڑھ سے درجن بھر مسلم اس نام پر گرفتار کئے جاچکے ہیں جب کہ دو نوجوان عاطف امین اور محمد ساجد کو ستمبر 2008میں بٹلہ ہاو_¿س میں شہید کردیا گیا تھا۔
حکومت، سیکورٹی ایجنسیوں اور پولیس کے انڈین مجاہدین کے تعلق سے دئے جانے والے بیانات میں بہت زیادہ جھول سے عوام کے اندر شک و شبہات اول روز ہی سے سر ابھار رہے تھے اور کبھی کبھار میڈیا میں بھی اس کا تذکرہ ہوا۔ 12دسمبر 2007ءکو اعظم گڑھ کے رائے سرائے بازار سے حکیم محمد طارق قاسمی اور 16دسمبر کو منڈھیاو_¿ں بازار سے محمد خالد مجاہد کی گرفتاری کے بعد یوپی پولیس نے اعلان کیا تھا کہ یہ دونوں لوگ اتر پردیش کی عدالتوں میں بم دھماکے کے ملزم ہیں اور اس کی سازش رچنے میں حرکت الجہاد الاسلامی (حوجی ) نامی تنظیم کا نام لیا گیا تھا۔ لیکن 19دسمبر کو بٹلہ ہاو_¿س کے فرضی انکاو_¿نٹر کے بعد عاطف امین ، محمد ساجد، محمد سیف اور عارف نسیم کو اس کےلئے قصور وار ٹھہراتے ہوئے ان تمام دھماکوں کے علاوہ سال 2005میں شرم جیوی ایکسپریس میں ہوئے دھماکے کو بھی انڈین مجاہدین سے جوڑ دیا گیا ہے۔ 14اگست 2008کو اعظم گڑھ کے گاو_¿ں بینا پارہ سے مفتی ابو البشر اور 26اگست کو لکھنو_¿ سے شہباز حسین کی گرفتاری کے بعد دونوں کو بالترتیب احمد آباد اور جے پور دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ بتایا گیا لیکن بٹلہ ہاو_¿س انکاو_¿نٹر کے بعد یہ سارے الزامات محمد عاطف امین کے سر منڈھ دئے گئے۔
26مارچ 2008کو مدھیہ پردیش پولیس نے اندور کے قریب ایک مکان سے سیمی کے سابق جنرل سکریٹری صفدر ناگوری سمیت 13لوگوں کو گرفتار کیا۔ پولیس کے دعوے کے مطابق یہ لوگ ملک کے متعدد مقامات پر دہشت گردانہ حملوں کا منصوبہ بنارہے تھے اور اس کے لئے انہوںنے مدھیہ پردیش، کیرلہ اور گجرات کے جنگلوں میں ٹریننگ کیمپ بھی منعقد کئے تھے۔اس سے چند ماہ قبل کرناٹک کے شہر ہبلی، بیلگام، بنگلور اور آندھرا پردیش کے دارالحکومت حیدر آباد سے بھی اسی طرح کے الزام میں درجنوں مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا لیکن ان میں سے کسی کے تعلق سے بھی انڈین مجاہدین نامی تنظیم کا کوئی نام سامنے نہیں آیا لیکن جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو پہلے سے قید افراد پر بھی انڈین مجاہدین سے تعلق رکھنے کا الزام لگا کر ایک طرف متعدد نئے مقامات قائم کئے گئے وہیں دوسری طرف ان پر مزید جبر و تشدد کا لائسنس حاصل کرلیا گیا۔
انصاف پسند عوام کو انڈین مجاہدین نام کی کسی تنظیم کے ہونے کا یقین نہ تو پہلے تھا اور نہ اب ہے۔ مسلم قائدین و دیگرحقوق انسانی کے کارکنان نے اول روز ہی سے اس پر سوال کھڑے کئے تھے لیکن اگر واقعی اس نام کی کوئی تنظیم ہے اور وہ اتنی ساری ہلاکتوں اور قتل و خون کے لئے ذمہ دار ہے اور اتنے عرصے سے ملک میں بد امنی پھیلانے کے لئے کوشاں ہے تو اس کا نام ابھی کیوں آرہا ہے۔ اگر وہ 2005میں شرم جیوی ایکسپریس اور 2007میں اتر پردیش کی عدالتوں میں دھماکوں میں ملوث ہے تو اس نے اس وقت اس کی ذمہ داری کیوں نہ قبول کی اس نے صرف دہلی احمد آباد اور جے پور دھماکوں ہی کی ذمہ داری کیوں قبول کرلی؟
آخر انڈین مجاہدین کے اتنے خطرناک ”دہشت گرد“ دھماکوں کے بعد اپنے گھر میں کیوں رہ رہے تھے اور پولیس کو انہیں گرفتار کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ اگر وہ دھماکوں کی سازش رچنے، بم رکھنے کے بعد اس فلیٹ میں کیوں ٹھہرے رہے جس کے لئے انہوںنے مقامی پولیس اسٹیشن میں Verificationفارم جمع کرایا تھا؟اس جیسے نہ جانے کتنے سوالات ہیں جو ہر خاص و عام زبان پر اس وقت بھی تھے اور اب بھی ہیں جن کا جواب ڈھونڈھا جانا ضروری ہے۔
گذشتہ مہینے مغربی بنگال کے دارالحکومت کو لکاتہ میں کئی بڑے تاجروں کو انڈین مجاہدین کی طرف سے دبئی اور نیپال سے فون موصول ہونے کی خبر میڈیا میں چھائی رہیں۔ ان میں ان سے کروڑوں روپیوں کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن دو تین دن کے بعد اس کے تعلق سے کوئی خبر نہیں آئی کہ آخر یہ فون دبئی سے کون کررہا تھا؟
انڈین مجاہدین کے تعلق سے ملک کا عام مسلمان مسلسل کنفیوژن کا شکار ہے۔اس کا ماننا ہے کہ یہ مسلمانوں کے خون کو حلال کرنے اور ان کے نوجوانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا ایک عنوان ہے ۔اسی لئے تخریب کاری کی ہر واردات کو اس نا م سے جوڑا جاتاہے اور پھر گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے۔سیمی کے سابق کل ہند صدر ڈاکٹر شاہد بدر انڈین مجاہدین اور سیمی کے تعلق سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ انڈین مجاہدین آئی بی کی فرضی تنظیم ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں پر ظلم کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر انڈین مجاہدین سیمی کا ہی حصہ ہے تو سیمی پر گذشتہ 9سالوں سے پابندی عائد ہے۔اصولی طور پر سیمی کی تمام ذیلی تنظیموں پر پابندی ہوگی۔ اس پر پابندی لگانے یا نہ لگانے کا سوال ہی بنیادی طورسے غلط ہے۔اب ہوم سکریٹری جی کے پلئی کاسیمی پرنئی پابندی لگانے کے ایک ماہ بعدیہ بیان دینا کہ” انڈین مجاہدین پر پابندی لگانے کا حکومت کا کوئی ارادہ نہیں“ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ الگ تنظیم ہے“۔اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر سیمی پر پابندی کے نوٹیفکیشن میں ان دھماکوں کو بنیاد کیسے بنایا جاسکتا ہے جس کے لئے انڈین مجاہدین سے تعلق رکھنے کے الزام میں متعدد نوجوانون پہلے سے گرفتار ہیں۔
٭٭

مقبول فدا حسین اور تسلیمہ نسرین

مقبول فدا حسین اور تسلیمہ نسرین
دہرا رویہ کیوں؟
ابو ظفر عادل اعظمی

بالآخر مقبول فدا حسین نے قطر کی شہریت قبول کرلی اور تسلیمہ نسرین کے ویزے میں چھ ماہ کے بجائے
ایک سال کی توسیع ہوگئی۔ مقبول فدا حسین ہندوستان کے شہر ممبئی کے رہنے والے ہیں اور ہندو دیوی دیوتاو_¿ں کی قابل اعتراض تصویر بنانے کی پاداش میں گذشتہ 5سالوں سے خود ساختہ جلا وطنی کے زندگی گذا رہے ہیں، جب کہ تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش کی رہنے والی ہیں اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہنے اور اسلام و مسلمانوں پر کیچڑ اچھالنے کے جرم میں ملک بدر کردیا گیا تھا جس کے بعد وہ ہندوستان کے شہر کلکتہ میں گذشتہ کئی سالوں سے مقیم ہے اور یہاں بھی اس نے اپنی مذموم حرکات کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دو اہم رخ ہیں۔ اسے دو رخی اور تعصب کا مکروہ چہرہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یوں توپوری دنیا میں اسلام اور اہل اسلام کے خلاف باطل نے ہمہ گیر جنگ چھیڑ رکھی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک ہندوستان جمہوری اقدار کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بھی مسلسل ان کوششوں میں پیش پیش ہے۔ عمومی طور پر تو اعدائے اسلام نے اسلام پر ہر طرف سے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کوششوں میںاللہ کے رسول کی ذات بطور خاص نشانہ رہی ہے۔
تسلیمہ نسرین بنگلہ دیش کی رہنے والی ہے۔ اس نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں متعدد بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات، ازواج مطہراتؓ ، پردہ اور دیگر موضوعات پر انتہائی گمراہ کن اور نازیبا باتیں لکھیں ہیں۔پہلی مرتبہ جب اس نے اس یہ مذموم حرکت کی تھی تو بنگلہ دیش سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس کے خلاف صدا کے احتجاج بلند کی تھی اور بنگلہ دیش کی حکومت نے اس کو ملک بدر کردیا۔لیکن اس کو مسلمانوں کا دل جلانے کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔ تب سے اپنی اسلام دشمنی کی روٹی کھارہی۔یہ عورت ہندوستان سمیت مختلف ممالک میں رہائش پذیر ہے۔ اس ہنگامے کے بعدہندوستان میں قیام کے دوران بھی اس نے متعدد شر انگیز مضامین لکھے جس سے مسلمانوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے اور انہوںنے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ متعدد بار کئی بڑے شہر اس آگ میں جھلس چکے ہیں اور سینکڑوں زندگیاں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔ سال 2008ءمیں جب تسلیمہ نسرین کے ویزا کی مدت ختم ہوئی تھی تو اس نے لندن کا رخ کرتے ہوئے ہندوستان پر سنگین قسم کے الزامات لگائے تھے اس نے کہا تھا کہ مجھے گھٹن سی محسوس ہورہی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ میں قید میں ہوں اس کے بعد بھی اسے نہ صرف ہندوستان میںرہنے کی جگہ دی گئی، بلکہ تحفظ کے لئے سخت ترین سیکورٹی فراہم کرکے دہلی میں کسی نامعلوم جگہ پر رکھا گیاہے اور چھ مہینے کے بجائے اس کے ویزے میں سال بھر کی توسیع کردی گئی تھی۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک کا رویہ دوسرے شاتم رسول سلمان رشدی وغیرہ کے تعلق سے بھی ایسا ہی رہا ہے۔
مقبول فدا حسین بمبئی کے رہنے والے تھے، تجریدی آرٹ میں ان کا نام کافی مقبول ہے۔ ان کی پینٹنگ ہندو بیرون ہند قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ ان کی بعض تصاویر کروڑوں روپیوں میں فروخت ہوئیں ۔انہیں پدم شری ، پدم بھوشن اور پدم وی بھوشن جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔ وہ راجیہ سبھا کے ممبر بھی رہے۔ لیکن فلموں کے پوسٹر بنانے سے شروعات کرکے تجریدی آرٹ تک پہنچنے والے ایم ایف حسین کی شخصیت کئی پہلوو_¿ں سے ناقابل فہم رہی اور یہی آگے چل کر بارہا متنازعہ بھی بنی۔فد احسین کو نہ جانے کیوں ننگے پیر رہنے کی عادت ہوگئی۔ لہذ ا وہ جہاں بھی جاتے ہیں، ننگے پیر ہی رہتے۔ پارلیمنٹ میں بھی ننگے پاو_¿ں آتے۔ ننگے پاو_¿ں ہی انہوںنے لندن ، پیرس اور امریکہوغیرہ کا سفر بھی کیا۔ ایک فائیواسٹار ہوٹل میں داخل ہوتے وقت سیکورٹی کے عملہ نے انہیں ننگے پاو_¿ں ہونے کی وجہ سے روک لیا جس کے بعد اچھا خاصہ ہنگامہ ہوا اس کے بعد ہوٹل کا منیجر انہیں منا کر اندر لے گیا۔ راجیہ سبھا میں اپنی پہلی مدت میں نہ تو انہوںنے کوئی تقریرکی نہ سوال کیا اور نہ ہی کسی بحث میںحصہ لیا البتہ اس کے بعد ایک آرٹ کے ذریعہ راجیہ سبھا کی کارروائی کا عکس انہوں نے ضرور کھینچا۔
اندرا گاندھی نے جب اپنے دور حکومت میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کی تھی تو فدا حسین نے اندرا گاندھی کی تصویر درگا کی شکل میں بنائی جسے اندرا گاندھی نے پسند کیا اور پارلیمنٹ میں آویزاں بھی کیا لیکن جب جنتاپارٹی برسراقتدار آئی تو اس نے اسے وہاں سے نکلوادیا۔ بعد میں جب پھر اندرا کی حکومت آئی تو انہیںراجیہ سبھا کی کرسی پیش کی گئی، شروع میں انہوںنے انکار کیالیکن دو سال کے بعد راضی ہوگئے۔ لیکن پارلیمنٹ میں ان کی حاضری انتہائی کم رہی ہے۔ ایم ایف حسین کے حوالے سے ایک دوسرے تنازعہ کا ذکر یوں کیا جاتا ہے کہ وہ 88 سال کی عمر میں اداکارہ مادھوری دکشت پر فدا ہوگئے ۔
ایم ایف حسین پر الزام ہے کہ انہوں نے ہندو دیوی دیوتاو_¿ں کی قابل اعتراض تصاویر بنائی تھیں۔ اس پر سب سے زیادہ ہنگامہ سال 2006میں ہوا ۔ پورے ملک میں ایم ایف حسین کے خلاف 900مقدمے قائم کئے گئے۔ ممبئی میں واقع ان کے گھر پر توڑ پھوڑ کی گئی اور ان کی پینٹنگس کو ضائع کردیا گیا۔ ان حالات میں وہ دبئی چلے گئے اور تب سے لندن، قطر اور دبئی میں دن گزارنے کے بعد اب قطر نے انہیں شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔جس کو انہوں نے قبول کرتے ہوئے اپنا ہندوستانی پاسپورٹ قطر میں واقع ہندوستانی سفارت خانہ کو سونپ دیا۔
آزادی اظہار رائے اور مظاہرہ فن کے نام پر ملک و بیرون ملک میں دونوں کے حامیوں کی بظاہر کمی نہیں ہے۔ بعض لوگ تو ایم ایف حسین کو مسلمانوں کا نمائندہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اخبارات اس موقع سے ایم ایف حسین اور تسلیمہ نسرین کی مظلومیت کا رونا روتے نہیں تھکتے لیکن یہ بات انتہائی واضح ہے کہ ان دو کرداروں میں ہندوستانی حکومت، انتظامیہ، عدلیہ اور میڈیا کا رویہ انتہائی منافقانہ ہے۔ تسلیمہ نسرین شاتم رسول ہے اس نے ایک ایسی ذات پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی ہے جسے ساری دنیاکے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ صرف مسلم مورخین ہی نہیں بلکہ دنیا کا ہر تعلیم یافتہ اور باشعور شخص آپ کی قربانی اور آپ کے برپا کردہ انقلاب سے واقف ہے ۔ تسلمیہ نسرین نے ازدواج مطہراتؓ کی شان میں نازیبا اور گستاخانہ باتیں کی ہیں جس کے خلاف ملک وبیرون ملک کے مسلمانوں نے سخت مظاہرہ کیا، لیکن کروڑ وں مسلمانوں کے جذبات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایک غیر ملکی عورت کو ہماری حکومت سر آنکھوں پر بٹھا رہی ہے ،اس کے تحفظ کے لئے کروڑوں اور اربوں روپئے خرچ کررہی ہے۔ اس کے نام پر متعددبار فسادات ہوچکے ہیں، متعدد جانیں ضائع ہوچکی ہیں، لیکن اظہار رائے کی گمراہ کن آزادی کے نعرے کے ان حامیوں کو اس کی پرواہ نہیں ہے لیکن دوسری طرف یہیں کا پلا بڑھا شخص جو دو دو مرتبہ ممبر پارلیامنٹ رہ چکا ہے اس کے تحفظ میںحکومت اور سیکورٹی ایجنسیاں ناکام ہےں۔واضح رہے کہ ایم ایف حسین پر ہندو دیوی دیوتاو_¿ں کی قابل اعتراض تصاویر بنانے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے۔ اسلام تو بلا وجہ عام تصویر کھنچوانے سے بھی منع کرتا ہے۔ اسلام کا ماننا تو یہ ہے کہ کوئی سرسوتی، ننگی نہ رہے چہ جائے کہ اس کی ننگی تصویر بنائی اور دکھائی جائے،اور اس ننگے پن کو آرٹ اور فن کا نام دے کر نہ صرف اس کے لئے جواز پیدا کیا جائے یا ایسے انتہائی قابل مذمت افعال کوآزادی رائے، آرٹ اور فن کا نام دے کر ان الفاظ اور اصطلاحات کی اہمیت کو پامال کیا جائے۔ لیکن یہاں ایک نہیں بہت ساری سرسوتی ننگی ہیں، ننگے پوسٹر ننگی تصاویر کا جال ہے۔ ننگے مجسموں کی حفاظت کے لئے لاکھوں خرچ کئے جارہے ہیں اور افسوس تو اس بات کہ ان کو دھرم اور مذہب کی سند حاصل ہے اور پھر اسی ننگے پن کو آزادی اور آرٹ کا نام دے دیا گیا ہے ۔کیا ننگا پن ہی اس دور کا ”امتیاز“ ہے۔
فدا حسین کا جرم یہ تھا کہ ننگے پن کے اس کاروبار میں وہ بھی شریک ہوگئے اور ان کا نام مسلمان تھا۔ اسلام تو یہ کہتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے پیشوا کو برا نہ کہو، نہ ہی گالی دو اس کی تصویر کشی کرنا تو دور کی بات لیکن پھر ان ننگے مجسموں کے بارے میں ہمارے یہ دھرم کے ٹھیکہ دار کیا کہیں گے جو ملک بھر کے مختلف مندروں میںنصب ہیں۔ آخر ان کو کس نے بنایا؟ کس نے وہاں لگایا اور کیوں آج تک ان کا ”نظارہ “ کیا جارہاہے اور اس کو آرٹ اور قدیم کلچر کی سند دے کر لاکھوں کی کمائی کی جارہی ہے؟واقعہ یہ ہے کہ ”آزادی اظہار رائے“ اور ” پاسداری فن “ کے خوشنما نعروں کو یہ مغائر مظاہر کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ٭٭



abuzafar@journalist.com