Tuesday, August 25, 2009

جیلوں میں دہشت گردی

جیلوں میں سرکاری دہشت گردی کے شکار مسلم نوجوان
ابوظفر عادل اعظمی

ایک طرف دہشت گردی کے بے بنیاد الزام سے ہندستانی مسلمان پریشانی میں مبتلا ہیں ۔وہیں اس طرح کے مقدمات میں گرفتار مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر بدترین قسم کے تشدد اور ٹارچرسے گزرنا پڑرہاہے۔ ویسے تو جیلوں میںمسلم قیدیوں کے ساتھ پہلے ہی سے تعصب برتا جاتارہاہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں ملک کے متعدد شہروں میں ہوئے بم دھماکوں کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ معاملہ اب پر تشدد وارداتوں ، اور منظم حملوں سے آگے بڑھ کر اقدام قتل اور قتل تک جاپہنچا ہے۔

ابتدا میں جیل انتظامیہ اورحکام یہ ’’خدمت ‘‘ جیل کے سزا یافتہ قیدیوں سے لیتے تھے تاہم اب رفتہ رفتہ یہ ذمہ داری بھی خود اپنے سر لے لی ہے۔ لیکن ان منظم حملوں کے بعد جیل حکام ان قیدیوں ہی کو گناہ گار ثابت کرنے کے لئے الٹاانہیں پر جیل کے ماحول کو بگاڑنے کا الزام لگا کر ایک اور مقدمہ تھوپ دیتے ہیں۔

گذشتہ 19جون کو غازی آباد ضلع کے ڈاسنا جیل میں فرنٹیئر میل بم دھماکوں کے ملزم محمد شکیل کی موت اسی طرح کی سازش کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ پولس اس موت کو خود کشی قرار دے رہی ہے جب کہ محمد شکیل کے اہل خانہ اسے قتل کی واردات کہہ رہے ہیں ۔ ان کے وکیل مبین اختر کا کہنا ہے کہ ’’میری ان سے جلد ہی ملاقات ہوئی تھی، بات چیت سے ذرا بھی مایوسی کا اندازہ نہیں ہورہا تھا جو کہ خودکشی جیسے کسی قدم کا باعث ہوتا۔

کیس کی نوعیت کے بارے میں میں نے انہیں تسلی دی کہ وہ جلد ہی اس کیس سے بری ہوجائیں گے اور وہ ہماری اس بات چیت سے کافی مطمئن تھے۔‘‘ محمد شکیل کو غازی آباد فرنٹیئرمیل ٹرین میں بم دھماکہ سمیت کل 20مقدمات میںملزم بنایا گیا تھا ان کو 11ستمبر 1997ء کو گرفتار کیا گیا تھا 20میں 19مقدموں میں عدالت نے انہیں بری یا ڈسچارج کردیا تھاصرف ایک کیس میں مقامی عدالت نے اسے 18جنوری 2006ء کو10سال کی سزا سنائی تھی۔ جس کے خلاف معاملہ ابھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ چونکہ جس وقت عدالت نے یہ فیصلہ سنایا اس وقت تک ملزم اپنی سزا کے 8سال مکمل کرچکاتھا اس لئے ہائی کورٹ نے اسے ضمانت پر رہا کرنے کاحکم دیا لیکن جیل حکام نے مختلف بہانے کرکے ان کی رہائی روکے رکھی۔

اس دوران یہ پتہ چلا کہ غازی آباد میں بھی ان کے خلاف ایک مقدمہ درج ہے لہٰذا غازی آباد پولیس کی درخواست پر شکیل کو غازی آباد جیل منتقل کردیا گیا۔ شکیل کے بھائی حبیب کا کہنا ہے کہ آٹھ سال تک شکیل کے خلاف غازی آباد میں کوئی بھی مقدمہ ہونے کی بات سامنے نہیں آئی لیکن جیسے ہی ہائی کورٹ سے ضمانت ملی تو یہ معاملے سامنے آیا۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ بھی پولیس کے دعوے کو غلط ثابت کررہی ہے۔ رپورٹ میںموت کی وجہ واضح نہیں ہوئی ہے۔ اس بنا پر شکیل کے بھائی حبیب نے جیل سپرٹنڈنٹ ، ڈپٹی جیلر اور ہیڈ کانسٹیبل پر قتل کا الزام لگاتے ہوئے مقامی عدالت میں ایک عرضی داخل کی ہے جو ابھی زیر سماعت ہے۔

اسسے پہلے مار پیٹ کا واقعہ جے پور سلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزمین شہباز حسین اور محمد سرورکے ساتھ اس وقت پیش آیا جب انہیں عدالت میں پیش کرنے کے لئے لاک اپ میں رکھا گیا تھا۔ پولیس اور جیل حکام کی شہہ پردیگر قیدیوں نے مل کر شہباز حسین اور محمد سرور کو بری طرح زدوکوب کیا۔ جس کی تحریری شکایت ملزمین کے اہل خانہ نے قومی حقوق انسانی کمیشن اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کی ہے لیکن ابھی تک اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔

13مئی 2008ء کے جے پور کے سلسلہ وار بم دھماکوں میں 8ایف آئی آر درج کیگئی ہے اور کل 11 لوگوں کا ملزم بنایا گیاہے جس میں شہباز حسین، محمد سرور، محمد سیف اور سیف الرحمن گرفتار ہوچکے ہیں۔ محمد سیف اس وقت احمد آباد کے سابر متی جیل میںہے بقیہ تینوں ملزمین جے پور سینٹرل جیل میںانتہائی ناگفتہ بہ صورت حال سے دوچار ہیں۔

تینوںملزمین کو یک وتنہا انتہائی تنگ کوٹھریوںمیں مقید کرکے رکھا گیا ہے جس میں نہ تو کوئی روشندان نہ کھڑی ہے اور نہ ہی کوئی پنکھا۔ ایک ماہ قبل تک سیف الرحمن کو 24گھنٹہ اس طرح بند رکھا جاتا تھا جب کہ شہباز حسین اور محمد سرور کو صبح ایک گھنٹے کے لئے کھولا جاتا تھا۔ اہل خانہ کے قومی حقوق انسانی کمیشن اور دیگر متعلقہ اداروں سے رجوع کرنے کے بعد اب تینوں ملزمین کو صبح 3گھنٹے کے لئے باہر نکالا جاتا ہے بقیہ 21گھنٹے ان کو اسی تنگ کوٹھری میں گزارنے ہوتے ہیں۔ محمد سرورکے چچا محمد عاصم یہ تفصیلات بتاتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں انھوں نے بتایا کہ سرور سے جیل میںپچھلی ملاقات میں اس نے بتایا کہ جے پور کی تیز گرمی میںپوری کوٹھری بغیر کسی روشندان اور پنکھے کے پریشر کو کر بن جاتی ہے اور ہم اس میں اُبل رہے ہوتے ہیں۔

گذشتہ 27مارچ کو احمد آباد کے سابر متی جیل میں بھی احمد آباد سلسلہ وار بم دھماکوں کے قیدیوں کے ساتھ اسی طرح کی پرتشدد مار پیٹ کا معاملہ سامنے آیا۔ جیل انتظامیہ کے متعصبانہ رویے اور کرپشن سے تنگ آکر پوٹا اور بم دھماکوں کے ملزمین بھوک ہڑتال پر تھے۔ جیل حکام اور مقامی انتظامیہ کو اس سے کافی پریشانی لاحق ہوئی انہوںنے ملزمین پر ہڑتال واپس لینے کے لئے ہر طرح کا دباؤ ڈالا لیکن جب وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے تو جیل حکام کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگا کر تقریبا دو ،ڈھائی سو پولیس والے بم دھماکوں کے الزام میں قید ملزمین کے بیرک میں پہنچ گئے۔ یہ سارے ملزمین اس وقت عصر کی نماز باجماعت ادا کررہے تھے۔

عین سجدے کی حالت میں ان پر چاروںطرف سے لاٹھیاں برسنے لگیں۔ سب کے سب لہو لہان ہوگئے اس دوران ایک ملزم ساجد منصوری کے انتقال کی افواہ پھیلی جس سے ملزمین کے اہل خانہ شدید اضطراب اور بے چارگی کی حالت میں دوسرے دن صبح جیل پہنچے لیکن سنیچر کا دن، جوکہ وکیل سے ملنے کے لئے خاص ہے، ہونے کے سبب ان کو ملنے نہیں دیا گیا لیکن ماحول اس وقت مزید گرم ہوگیا جب ملزمین کے وکلاء کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

اگلے دن اتوار تھا اہل خانہ جیل کے باہر دھرنے پر بیٹھ گئے لیکن اس کا خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا نتیجتاً پیر کو عدالت سے رجوع کیا گیا لیکن مقامی عدالت کے حکم کے باوجود بھی ملاقات نہ دی گئی بالآخر منگل کو احمد آباد ہائی کورٹ کے سخت رخ کو دیکھتے ہوئے صرف ملزمین کے اہل خانہ کو ملنے کی اجازت دی گئی۔ اس مار پیٹ میں بم دھماکے کے 23 ملزمین میں سے بیشتر کو شدید چوٹیں آئی تھیں ساجد منصوری کا ہاتھ فرکچر تھا جب کہ سر میں بھی کافی چوٹ تھی۔

مفتی ابو البشر کے دائیں ہاتھ میں فرکچر تھا اور کندھے اورپیٹھ میں شدید چوٹ آئی، عباس نامی ایک ملزم کے پورے جسم میں کئی جگہ شدید چوٹیں تھیں جس سے وہ خود سے چلنے سے معذور تھا اسی طرح جاوید احمد، صغیراحمد اور غیاث الدین عبد العلیم کو سر اور پیر میں کافی چوٹیں آئیں۔ ملزمین کو بروقت طبی امداد بھی نہیں مل سکی، اہل خانہ اور دیگر سماجی شخصیات کے دباؤ پر طبی امدادی ٹیم دورروز بعد جیل پہنچی۔جب کہ ملزمین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ میڈیکل رپورٹیں حقائق پر مبنی نہیں ہیں، ان میں ملزمین کے زخموںکا صحیح طورپر اندراج نہیں کیا گیا ہے ۔

جیل میں مارپیٹ کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ملزم جاوید احمد کے والد صغیر احمد کہتے ہیں کہ ’’ جب ہمیں اس حاثے کی اطلاع ملی تو ہمارا پورا گھر پوری رات سو نہیں سکا، مسلسل وکیل کو فون کرتے رہے اور طرح طرح کے خیالات ہمیں پریشان کرتے رہے۔‘‘ حقوق انسانی اور سماجی شخصیات پر مشتمل اے پی سی آر اور پی یو سی ایل کی Fact Finding Teamجب اس کی تفتیش کے لئے احمد آباد پہنچی تو ملزم زاہد شیخ کی والدہ نے خون میں لت پت وہ قمیص بھی دکھائی جو مارپیٹ کے وقت زاہد شیخ پہنے ہوئے تھے۔ لیکن ایک طرف مقامی پولیس نے اہل خانہ کی طرف سے FIR درج کرنے سے انکار کردیا وہیں جیل انتظامیہ کی طرف سے بم دھماکوں کے 23ملزمین کے خلاف جیل کی سلاخیں نکال کر جیل حکام پر حملہ کرنے کا معاملہ سابرمتی پولیس اسٹیشن میں درج ہوا۔

ملزمین کے اہل خانہ نے اس سلسلے میں قومی حقوق انسان کمیشن وزارت برائے اقلیتی امور، چیف جسٹس آف انڈیا سمیت دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کو عرضداشت روانہ کی لیکن ابھی تک اس کا کوئی قابل ذکر حل نہ نکل سکا۔ جیل حکام کی طرف سے درج FIRپر تبصرہ کرتے ہوئے احمد آباد دہائی کورٹ کے وکیل خالد شیخ کا کہنا ہے کہ’’ اگر نہتے ملزم جیل کی آہنی سلاخیں نکال جیل کی پولس اور افسران پر حملہ کرسکتے ہیں، ان کو زخمی کرسکتے ہیں تو پھر آخر وہ جیل میں کیسے ہیں؟‘‘ عدالت کا رویہ بھی اس معاملے میں بڑا عجیب رہا۔ ذیلی عدالت سے آگے بڑھ کر یہ معاملہ احمد آباد ہائی کورٹ پہنچا اور کافی قیل و قال کے بعد ہائی کورٹ نے اس واقعہ کو معمولی مارپیٹ کا واقعہ ٹھہراتے ہوئے جیل انتظامیہ کے موقف کو درست قرار دیااور مظلومین کی عرضی مسترد کردی۔

جیل میں مارپیٹ کا ایک انتہائی تکلیف دہ واقعہ لکھنؤ جیل میں اترپردیش کی عدالتوں میں ہوئے بم دھماکوں کے ملزم حکیم محمد طارق قاسمی اور خالد مجاہد کے ساتھ پیش آیا ۔یہ لوگ اس وقت نماز سے فارغ ہوکر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ جیلر سمیت کئی پولیس اہلکار وہاں آدھمکے ۔انھوں نے نہ صرف ان کو بری طرح مارا پیٹا بلکہ قرآن پاک کو چھین کر استنجاء خانے کی طرف پھینک دیا۔

شدید جسمانی تشدد اور مارپیٹ کا اندوہناک واقعہ گذشتہ سال 28جون کو ممبئی کی بدنام زمانہ جیل آرتھرروڈ میں بھی پیش آیا تھا۔ اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کے 16، مالیگاؤں قبرستان بم دھماکہ کے 6اور 7/11کے 13ملزمین کو جیل میں بے دردی کے ساتھ مارا گیا جس میں 3ملزمین کا ہاتھ فریکچر ہو ا اور پورا جسم زخمی ہوا 5 ملزمین کا پیر فریکچر ہوا اور پورے جسم پر شدید چوٹیں آئیں اور دیگر ملزمین کو بھی شدید زخم لگے۔

پھر ان کو بغیر کسی طبی امداد کے جیل کے ڈاکٹر سے فرضی ہے Fit for Trad کا پاس بنواکر 8تا 11گھنٹے سفر کراکے کولھاپور ، ناگپور اور رتناگیری کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ جیل انتظامیہ نے اس مارپیٹ کا سبب ملزمین کی ڈسپلن شکنی قرار دیا لیکن ملزمین کے بقول جیل سپر نٹنڈنٹ سواتی ساٹھے کئی ملزمین کو سرکاری گواہ بننے کے لئے مجبور کررہی تھی جس سے تنگ آکر انہوںنے عدالت میں تحریری شکایت درج کرائی۔

جیل کی بد نظمی اور کرپشن کے لئے ابھی بعض ملزمین نے Department of Prison کو توجہ دلائی اور حق اطلاع قانون کے تحت جیل مینول اور کچھ دیگر معلومات حاصل کرنے کا مطالبہ کیا جس سے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ان سے ذاتی پرخاش ہوگئی تھی اور جب 28جون کو انہیں دوسری جیلوں میں منتقل ہونے کے لئے تیار ہونے کا حکم ملا تو انہوںنے اس کا سبب جاننا چاہا لیکن اس کے بدلے انہیں لاٹھیاں کھانے کو ملیں۔ ملزمین کے اہل خانہ نے مکو کا کورٹ میں اس کی شکایت درج کی مکوکا عدالت نے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ، ممبئی کو ملزمین کے بیانات اور میڈیکل رپورٹ فراہم کرتے ہوئے اس پر رپورٹ پیش کرنے کے لئے کہا۔

چیف میٹر پولیئن مجسٹریٹ نے اس کی تفتیش رواںسال جنوری میںمکمل کرلی لیکن ابھی تک ان کی رپورٹ پیش نہیں ہوسکی۔ جمعیۃ العلماء ممبئی نے ممبئی ہائی کورٹ میں اس معاملے پر مبنی ایک عرضی داخل کی۔ عدالت نے اس کو مفاد عامہ (PIL)کے تحت قبول کرتے ہوئے کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت ممبئی سیشن کورٹ کے پرنسپل جج ٹی وی نلاوڑے کو اس واقعے کی جو ڈیشنل انکوائری کا حکم دیا۔

جناب نلاوڑے نے اپنی رپورٹ 8اکتوبر 2008 کو ہائی کورٹ میں پیش کردی۔ رپورٹ میں اس واقعے کے لئے جیل انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا گیا ’’ جیل انتظامیہ نے قیدیوں کے خلاف حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا ہے جس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اور مار پیٹ کا یہ واقعہ ضابطہ شکنی کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور سبب (ذاتی دشمنی، عصبیت وغیرہ) سے ہوا ہے۔ عدالت میں پرنسپل جج کی رپورٹ اور فریقین کی بحث کے بعد 26مارچ 2009کو ہائی کورٹ نے اس پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا اور اب گذشتہ 22جولائی کو ممبئی ہائی کورٹ نے اس بابت اپنا تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے ارتھر روڈ جیل کی سپرٹنڈنٹ سواتی ساٹھے اور دیگر پولیس والوں پر مقدمہ قائم کرنے کا حکم دیاہے۔

ممبئی ہائی کورٹ کی جسٹس بلال نازکی اور جسٹس وی آر جوشی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے چیف سکریٹری مہاراشٹر کو دئے گئے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ ارتھر روڈ ،تھانہ اور ناگپور جیل کے ان ڈاکٹروں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے جنھوں نے میڈیکل رپورٹ توڑ مروڑ کر پیش کی تھی۔نیز تمام ملزمین کو جنھیں غیر قانونی طریقے سے رتنا گیری ،کولہا پور اور ناگپور کے جیلوں میں منتقل کیاگیا ہے واپس ارتھر روڈ جیل لایا جائے اور آئندہ عدالت کی اجازت کے بغیر کسی زیر سماعت قیدی کو جیل سے منتقل نہ کیا جائے۔عدالت کا یہ حکم یقینا خوش کن اور امید افزا ہے اور اس سے مستقبل میں بہتری کی امید کی جاسکے گی لیکن جمیۃ علماء کے ممبئی میں قانونی معاملات کے ذمہ دار مولانا گلزار اعظمی اسے دیر سے آیا درست فیصلہ قرار دے رہے ہیں تاہم مولانا کا یہ ماننا ہے کہ اس فیصلے سے جیل انتظامیہ کے من مانے رویے پر لگام ضرور کسے گی۔

یوں تو پورے ملک کے جیلوں کے نظم و نسق اور انتظام و انصرام کی صورت حال پہلے ہی سے ناگفتہ بہ ہے۔ ملک کے سماجی ڈھانچے میں جیلیں خفیہ تہہ خانے جیسی ہیں جس میںچل رہی سرگرمیاں بہ مشکل تمام ہی باہر آپاتی ہیں لیکن جب معاملہ مسلمان قید یوں کا ہوا اور پھر ان کے ساتھ بم دھماکے یا ملک کے خلاف سازش کا الزام ہو توعداوت و تعصب اپنی انتہا پر پہنچ جاتا ہے سابرمتی اور آرتھر روڈ جیل محض اس سلسلے کے دونام ہیں ورنہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی اور مسلم قیدیوں کے لئے زندگی عذاب بنادینے میںکوئی جیل پیچھے نہیں ہے۔

مسلم ملزمین کے ساتھ اول روز ہی سے مجرم کی طرح سلوک کیا جاتا ہے اور وقتا فوقتا چوری، ڈکیتی، زنا ، فریب دہی اور قتل کے سزا یافتہ مجرمین کی ’’دیش بھکتی ‘‘کو ہوا دے کر ان کے لئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کے جاتی ہے۔ عموما اس طرح کی خبریں باہر آہی نہیں پاتیں لیکن آتی بھی ہیں تو ملت کے تن مردہ میں کوئی حرارت نہیں پیدا کرپاتیں۔ انگریزی اور ہندی میڈیا تو ویسے بھی اس طرح کی چیزوں کوکوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن قوم و ملت کے نام پر صفحے سیاہ کرنے والے اردو میڈیا کے نزدیک بھی یہ لائق اعتناء نہیں قرار پاتی۔اور ملت کا سواد اعظم جانے ان جانے اپنی مجرمانہ خاموشی سے اس طرح کے ظلم کو اور پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔

No comments:

Post a Comment