چین میں خونِ مسلم کی
ابو ظفر عادل اعظمی
چین کی شمال مغربی ریاست ژنجیانگ میں جولائی کے اوائل میں برپا ہونے والے تشدد میں اب تک 800سے زائد افرار ہلاک ہوگئے ہیں لیکن مقامی انتظامیہ اور چینی حکومت اس ہلاکت شدگان کی تعداد کو 200سے زیادہ نہیں بتارہی ہے۔ جب کہ برطانوی اخبار ”دی ٹائمز“ نے بھی اس کی توثیق کی ہے۔ ژنجیانگ چین کی ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے جو تیل اور دیگر معدنی ذخائر سے مالا مال ہونے کے علاوہ جغرافیائی لحاظ سے تجارتی طور پر انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ مسلمانوں کے خلاف حالیہ تشدد کے لئے ایک خبر کو بنیاد بنایا گیا جس میں کہا گیا کہ اویغور مسلمانوں (Uighur)نے ھان (Han)نامی نسل کی ایک چینی عورت سے جنسی زیادتی کی تھی۔کچھ نا معلوم افراد نے ای میل اور SMS کے ذریعہ اس خبر کو پھیلایا تھا۔ اویغور مسلمان شروع سے ہی اس واقعہ کی تفتیش کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کے قتل عام کے لئے اس افواہ کا استعمال کیا گیا ہے۔”ھان“ نسل کے لوگوں کی طرف سے کئے گئے اس تشدد میںچینی پولیس نے کھل کر ان کا ساتھ دیا اور اب یہ آگ ریاست سے باہربھی پھیل رہی ہے۔ ژنجیانگ جیسے سنکیا نگ کے نام سے بھی جانا جاتاہے،او¿یغور مسلمانوں کا خود مختار علاقہ کہلاتاہے اسے مشرقی ترکستان بھی کہتے ہیں۔
8لاکھ 40ہزار مربع میل پر پھیلے ژنجیانگ صوبے کی کل آبادی تقریباً 2کروڑ ہے۔ چند دھائی قبل یہاں 90%مسلمان تھے لیکن چینی نسل ہان کی منظم آباد کاری (Demographic Engineering.)کے سبب یہاں مسلم آبادی کا تناسب خطر ناک حد تک متاثر ہوچکا ہے۔ 2004ءمیں ہوئی مردم شماری کے مطابق ہان نسل کی آبادی تقریبا 41%بتائی جاتی ہے۔ ژنجیانگ کا دارالحکومت ”اُرومقی“ (Urumqi) ہے، سرکاری زبان ”ساری کولی“(Sari koli) ہے جب کہ 8ملین لوگ اویغور زبان بولتے ہیں۔ ژنجیانگ تیل اوردیگر معدنی ذخائر کے لئے مشہور ہے۔ چین میںتیل کی کل ضرورت کا ساتواں حصہ یہیں سے نکلتا ہے ۔ ایشیا کی مختلف ریاستوں کے ساتھ تیل پائپ لائن اور تجارت کے لحاظ سے یہ چین کی ایک اہم ریاست ہے۔
ماضی میں ایک لمبے عرصے تک یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر کنٹرول رہا۔ چین کی تاریخ میں مختلف نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد 12 نومبر 1933ءکویہاں پہلی مرتبہ جمہوریہ مشرقی ترکستان کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم ہوئی۔ لیکن ایک سال بعد ہی ”شینگ سی سائی“ نامی چینی جنگجو سردار نے اس کا خاتمہ کردیا اور روس کی مدد سے ایک عرصے تک اس علاقے پر حکومت کرتارہا۔ 1944ءمیں دوسری مرتبہ روس کی مدد سے ترکستانی ریاست قائم ہوئی لیکن 1949ءمیں چین کی ”پیپلز لبریشن آرمی“ نے اس کو چین کا حصہ بنا لیا۔ 1960کے بعد چینی مسلمانوں کو نام نہاد ثقافتی انقلاب کے ظلم وستم کا سامنا کرنا پڑا۔ مساجد پرتالالگا دیاگیا، اسلامی عبادت و روایات پر مختلف طرح سے پابندیاں عائد کردی گئیں اورقرآن پاک کی تعلیمات کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ ظلم و ستم کا یہ دور دس سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا۔ 1974 میںمسلمانوںنے اپنے مذہبی تشخص کے احیاءکے لئے ملک گیر پیمانے پر کوشش کی۔ چین میںمسلم آبادی والے دوسرے بڑے صوبہ یونّان(Yannan) میں زبردست پر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔یہ سلسلہ دراز ہوتاگیا، جس میں تقریباً 1700 مسلمان شہید ہوگئے۔چند سال بعد چینی حکومت نے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے محدود مذہبی آزادی دے دی۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم رہا۔ ہان نسل کے لوگوں نے حکومت کی تائید سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھول دیا جس سے تنگ آکر 1988ءمیںان کے خلاف ژنجیانگ کے دارالحکومت ارومقی و دیگر شہروں میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ 1990ءمیں اس وقت کے چینی وزیر اعظم ”لی پانگ“ نے اقلیتوں کی ایک کانفرنس میں ژنجیانگ کے علیحدگی پسندوں کی کھل کر مذمت کی جس کے خلاف پوری ریاست میںمسلمانوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ لیکن فوجی آپریشن کے ذریعہ اس کو کچل دیا گیا۔ جس میں 60مسلمانوں سمیت ایک مسجد بھی شہید ہوگئی۔
حالیہ تشدداسی تاریخی تسلسل کا حصہ ہے۔ دارالحکومت ارومقی سمیت پورے ژنجیانگ میںچینی افواج اور پیرا ملٹری فورسیز کو بڑی تعداد میںتعینات کردیا گیا ہے۔ شہروں کے علاوہ دیہاتوں میں بھی بڑے پیمانے پر چھاپہ مار کاروائیاں جاری ہیں۔ ان کی دہشت اتنی زیادہ ہے کہ مقامی مسلمان محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔ او¿یغور مسلمان کافی دنوں سے ژنجیانگ میںھان نسل کے لوگوں کے بڑھتے عمل دخل سے پریشان ہیں۔ چینی حکومت ژنجیانگ میں منظم منصوبے کے تحت ھان لوگوں کو بسارہی ہے تاکہ اس خطے میں آبادی کا تناسب بدل جائے اور وہ یہاں کے قدرتی ذخائر اور تجارتی شاہراہوں پر براہ راست کنٹرول حاصل کرلے ۔ گذشتہ کئی سالوں سے اس کوشش میںکافی تیزی آئی ہے اور دارالحکومت ارومقی میں آبادی کا تناسب بڑی حد تک تبدیل ہوگیاہے۔ اہم تجارتی ذرائع و مراکز پر ھان لوگوں کا قبضہ ہے اور او¿یغور مسلمان لے دے کے صرف زراعت تک سمٹ کر رہ گئے ہیں۔ ان کو وہاں نوکریوں کے حصول میںبھی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ جس سے پوری ریاست کے مسلمان شدید معاشی اضطراب میں مبتلا ہیں۔ چین کے جنوبی شہر ھانگ گانک کی کھلونے بنانے والی فیکٹری میں محض افواہ کی بنیاد پر او¿یغور مسلمانوں کے قتل نے مسلمانوں کو مشتعل کردیا۔ا نہوںنے اس کے خلاف مظاہرے کئے اور حکومت سے پورے واقعے کی اعلیٰ تحقیقات کا مطالبہ کیا ۔جب کہ چینی پولیس بھی فیکٹری میں”اویغور مسلمانوں کے ذریعہ ہان عورت کی ساتھ جنسی زیادتی کو خبر کو جھوٹ قرار دے رہی ہے۔ ھان لوگوں کے لئے مسلمانوں کا خون حلال کرنے کا یہ اچھا موقع تھا۔جرمن اخبار در”اسپے جیل“ نے کچھ تصویریں شائع کی ہیں۔ جن میں ھان نسل کے لوگوں کو لاٹھی، گھریلو اسلحے اور دیگر آلات کے ساتھ اویغورمسلمانوں کے گھروں و دوکانوں کو جلانے اور ان کو مارنے کے لئے سڑکوں پر ٹولیوں میںپھرتے دکھایا گیا ہے۔ یہ آگ اب قریبی شہر کاشغرتک پہنچ چکی ہے۔ لیکن چینی حکومت اس کے لئے مسلمانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرانے پر تلی ہوئی ہے۔ چینی پولس ایک طرف مسلمانوں کو فسادات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ان پر القاعدہ سے تعلق رکھنے کا الزام لگارہی ہے وہیں چینی حکومت اس کے لئے امریکہ میںجلاوطنی کی زندگی گزررہی خاتون اویغوررہنما رابعہ قدیر کو مورد الزام ٹھہرارہی ہے۔ حکومت کا الزام ہے کہ اس کے لئے ان کوسی آئی اے کی پشت پناہی حاصل ہے۔ لیکن رابعہ قدیر نے امریکہ میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چینی حکومت اس کے ذریعہ مسلمانوں کے تشخص کو مٹانا چاہتی ہے۔ انھوں نے مسلم حکومتوں کی اس قتل عام پر خاموشی پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ چینی میڈیا ژنجیانگ کی خبروں کو مسلسل دبانے کی کوشش میںلگا ہے لیکن پھر بھی جو اطلاعات آئی ہیں وہ بھی کم تشویشناک نہیں ہیں۔
ترکی نے ان حملوں کا بروقت نوٹس لیا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے ان حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسلمانوں کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ وہیںترکی کے وزیر خارجہ احمد داو¿د اوغلو نے چینی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی پاسداری کرے۔ ترکی کے وزیر خارجہ نے چینی ہم منصب سے بات کی اور ترکی میں چینی سفیر کو طلب کرکے اپنا احتجاج بھی درج کرایا۔ لیکن اس آگ کے کاشغرتک پہنچے کے بعد بھی ارومقی سے لے کر نیل کے ساحل تک مکمل خاموش ہے۔ کیا مسلم دنیا اس ظلم و بربریت کے خلاف ایک ہوکر اس کا مقابلہ کرپائے گی۔؟ ٭٭٭
No comments:
Post a Comment